سیلاب کا مسئلہ

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

آج سے کم و بیش 12سال قبل پاکستان میں سیلاب آیا تھا تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں حالیہ شدید بارشوں کے بعد سیلاب کا نیا خدشہ جنم لے رہا ہے۔ ملک بھر کے انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا جبکہ آبادیوں میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کی شرح بھی پریشان کن ہے۔

رواں برس مون سون سیزن کے دوران بارش غیر متوقع طور پر بے حد زیادہ ہوئی۔ وفاقی حکومت و صوبائی حکومتیں اپنے سیاسی جھگڑوں میں مصروف ہیں جبکہ مقامی انتظامیہ بارش، سیلابی ریلوں اور طغیانی سے متاثرہ عوام کی امداد سے قاصر نظر آتی ہے۔ آسمانی آفات سے نمٹنے کے ادارے یعنی ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا کام بری طرح نظر انداز کیا جارہا ہے۔

اگر بار بار پیدا ہونے والے مسائل پر قابو پانا ہے تو حکومت کو اپنی توجہ عوامی پریشانیوں پر مرکوز رکھنا ہوگی جس کیلئے اختراعی کاوشوں کی ضرورت ہے۔ لاہور، کراچی، کوئٹہ، پشاور، راولپنڈی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں موسلا دھار بارش نے تباہی مچا رکھی ہے۔ شہرِ قائد کی سرکیں ناکارہ اور انڈر پاسز مکمل طور پر زیرِ آب آگئے۔

کراچی میں متعد افراد بجلی کا کرنٹ لگنے، ڈوبنے اور پھنسے رہنے کی وجہ سے جاں بحق ہو گئے۔ ندی نالے اوور فلو ہوگئے جبکہ کے الیکٹرک کے 400 سے زائد فیڈر ٹرپ کر گئے۔ شہریوں کو لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔ حیدر آباد، دادو اور سندھ بھر میں 200 سے زائد دیہاتوں میں بھی عوام کو ایسی ہی سنگین صورتحال کا سامنا ہے جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔

بلوچستان میں بارش، سیلابی ریلوں اور مختلف حادثات کے نتیجے میں 103 سے زائد اموات رپورٹ ہوئیں۔ پنجاب، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں بھی شدید موسم کے باعث عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔ لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ محکمۂ موسمیات کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں مون سون کے نئے اسپیل کا آغاز 27 جولائی سے ہوچکا ہے۔

قدرتی آفات سے حفاظت وقت کی ضروررت ہے تاہم اچانک ضرورت پڑنے پر قلیل مدتی اقدامات سے عوام کی حفاظت کی ضروریات پوری نہیں ہوسکتیں۔ ممکنہ سیلاب سے نجات حاصل کرنے کیلئے جدید تحقیق کو بروئے کار لانا ہوگا۔ بارش کے پانی کو اکٹھا کرنے سے سال بھر پانی کی قلت کے مسائل سے بچا جاسکتا ہے بلکہ زیرِ زمین آبی ذخائر میں بھی اضافہ ہوگا۔ 

اس سلسلے میں پاکستان چین کے اسپنج سٹی ماڈل سے بھی مدد لے سکتا ہے۔ اسی طرح کے دیگر نئے اور جدید حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے جس کیلئے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی تاہم ایسے زیادہ تر حل ماحول دوست ہوتے ہیں جن میں صرف ایک بار کی لاگت کے بعد مستقبل کے اخراجات سے بچا جاسکتا ہے۔ 

Related Posts