پاکستان میں مسائل بے شمار ہیں اور انہیں حل کرنے کے دعوے ان گنت، لیکن جب یہ دعوے پورے نہیں ہوتے تو عوام کے ذہنوں پر ایک سوگ کی سی فضا طاری ہوجاتی ہے۔
ہوتا کچھ یوں ہے کہ اگر کسی قومی مسئلے پر سیاستدانوں کی رائے لی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ایک جانب کے سیاستدان زمین کے، دوسری جانب کے چاند کے جبکہ تیسری جانب کے مریخ کے قصے سناتے ہیں، مسائل پر افہام و تفہیم اور اتفاق کا بڑا فقدان پایاجاتا ہے۔
دراصل ایسا اس لیے ہے کہ قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں حکومتی بنچوں پر جو اراکینِ پارلیمنٹ اور وزراء بیٹھتے ہیں وہ سب اچھا ہے کا راگ الاپتے ہیں جبکہ اپوزیشن والوں کو تمام تر حکومتی پالیسیوں کے خلاف ہی بولنا ہوتا ہے چاہے وہ درست ہی کیوں نہ ہوں۔
جب تک ایک سیاسی جماعت دوسری سے اتحاد نہیں کرلیتی، دونوں کی مختلف النوع مسائل کے حل کیلئے رائے میں زمین آسمان کا فرق محسوس ہوتا ہے اور جب کوئی فطری یا غیر فطری اتحاد جنم لیتا ہے تو جنم جنم کے دشمن باہم اس طرح شیر و شکر ہوتے ہیں کہ ع:
حیراں ہوں سر کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں؟
مثال کے طور پر عمران خان کیلئے جو لوگ ڈاکو تھے وہ آگے چل کر ان کے اتحادی بنے اور اسی طرح ملکی سیاست میں ہمیشہ سے ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے مل کر وفاق میں حکومت قائم کر لی۔
تمام تر اتفاق و اتحاد اور لڑائیوں کے درمیان سب سے زیادہ عوام پس رہے ہیں کیونکہ سیاستدان آپس میں مل کر بھی اور الگ الگ بھی عوام کے مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام نظر آتے ہیں۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی، زرِ مبادلہ کے کم ہوتے ذخائر اور عوام کی وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی قوتِ خرید اس کا سب سے بڑا ثبوت ہیں۔
محسوس ایسا ہوتا ہے کہ اقتدار کی جنگ میں مصروف سیاستدانوں نے ملکی مسائل حلد کرنے کی طرف توجہ دینا کم اور اپنے اثاثے بنانے پر زیادہ مرکوز کررکھی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امیر، امیر سے امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا جارہا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر ایوان ہائے اقتدار میں براجمان ہونے والے اراکینِ پارلیمنٹ اور وزراء سمیت تمام تر سیاستدان اپنے حقیقی کاموں کو نظر انداز کرنے کی بجائے عوامی مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ کوششیں کریں۔ بصورتِ دیگر زبانِ خلق کسی بھی وقت نقارۂ خدا بن سکتی ہے۔