ایک بار پھر انکار

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترمیمی بل 2022 بغیر دستخط کیے دوبارہ وزیر اعظم آفس کو ارسال کردیا اور ریمارکس دئیے کہ بل رجعت پسندی کے زمرے میں آتا ہے۔

محسوس ایسا ہوتا ہے کہ صدرِ پاکستان موجودہ حکومت کی بڑی قانون سازی کو منظور کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔  خدشات یہ ہیں کہ حکومت نیب ترامیم سے بدعنوانی کو فروغ دینے کے حق میں ہے کیونکہ یہی ادارہ کرپشن کے خلاف سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔

ایوانِ صدر کی جانب سے منگل کو جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ نیب ترمیمی بل بے پناہ دولت اکٹھی کرنے والے بدعنوانوں کو بھی یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ لوٹ مار جاری رکھنے کیلئے آزاد ہیں۔ اس پر پاکستانی عوام کے ذہنوں میں کوئی شک نہیں۔

واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں صدرِ مملکت کے عہدے پر براجمان ہونے والے ڈاکٹر عارف علوی پی ٹی آئی کی پالیسی کے مطابق بدعنوانی کے سخت خلاف ہیں۔ صدرِ مملکت نے اعادہ کیا کہ عوام ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانا چاہتے ہیں لیکن زیادہ ترکوششیں طویل عدالتی عمل اور کمزور پراسیکیوشن کے باعث ناکام رہیں۔

صدرِ مملکت کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ نیب قانون کو بہتر بنانے، خامیاں دور کرنے اور مضبوطی کیلئے اقدامات کی بجائے اس ادارے کو کمزور کیا جارہا ہے۔ ہمیں قرآن و سنت کے احکامات پر عمل کرنا چاہئے۔

بیان میں صدرِ مملکت نے کہا کہ میں اللہ کے سامنے جواب دہ اور اس سے معافی کا طلبگار ہوں۔ میرا ضمیر مجھے نیب ترمیمی بل پر دستخط کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ صدر نے ترمیمی بلز کو آرٹیکل 75 کی شق کے تحت کمیٹیوں کو دوبارہ غوروخوض کیلئے واپس کردیا۔

واضح رہے کہ ترمیمی بل 9 جون کے روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور کیے گئے۔ آئین کے مطابق صدر کے بل پر دستخط سے انکار کے باوجود بلز نافذ العمل ہوں گے۔ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ صدرِ مملکت موجودہ حکومت سے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کیوں نہیں کہتے؟

دوسرے آپشن کے طور پر صدرِ مملکت متنازعہ قانون سازی کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے عہدے سے سبکدوش ہوسکتے ہیں۔ وزیر اعظم اور صدر کے مابین ہم آہنگی کا فقدان یقینی طور پر اہم قانون سازی کیلئے رکاوٹ بنے گا جس کا بالآخر نقصان پاکستان کے عوام کو ہوگا۔ 

Related Posts