کراچی :میئر کراچی وسیم اختر نے کہا ہے کہ کراچی تباہ ہورہا ہے شہر میں پانی و سیوریج، سڑکیں اور کچرے کا نظام مکمل طور پر تباہ ہوچکا، وبائی امراض پھیل رہے ہیں، اگر کراچی کو اس کا حق اور وسائل مل رہے ہوتے تو یہ حال نہ ہوتا، اس کے وہی ذمہ دار ہیں جو شہری اداروں اور وسائل پر قابض ہیں، صوبہ اور ملک کے چیف ایگزیکٹو کراچی کی صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لیں ورنہ بہت زیادہ نقصان ہوجائے گا۔
یہ نقصان صرف کراچی کا نہیں بلکہ ملک اور صوبہ کا ہوگا، ان خیالات کااظہار انہوں نے جمعرات کو پارسی کالونی، سولجر بازار میں سڑک کی استر کاری کے کام کے معائنہ کے موقع پر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پربلدیہ شرقی کے چیئرمین معید انور، سابق وفاقی وزیر حاجی محمد حنیف طیب، ورکس کمیٹی کے چیئرمین حسن نقوی اور دیگر منتخب نمائندے بھی موجود تھے، میئر کراچی نے کہا کہ محرم الحرام کے بعد ربیع الاول میں علماء کرام کی نشاندہی پر مساجد کے اطراف اور جلوسوں کی گزرگاہوں کو ٹھیک کرنے کے لئے اس سال بھی استر کاری کاکام شہر کے مختلف علاقوں میں جاری ہے مگر یہ مستقل حل نہیں۔
مزید پڑھیں :کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ کے سیوریج میں پولیو وائرس کی تصدیق
شہر کی ایسی صورتحال ہونا چاہئے کہ سڑکوں یا سیوریج نظام کی درستگی کے لئے کسی کو آنا ہی نہ پڑے یہ تو حکومتوں کے کرنے کے کام ہیں جو درست ہونے چاہئیں مگر شہر کی صورتحال بہت خراب ہے، جو فنڈز کراچی کو ملنا چاہئے وہ نہیں مل رہے اگر فنڈز مل رہے ہوتے تو شہر کی یہ صورتحال نہ ہوتی، ترقیاتی اسکیمیں نا مکمل پڑی ہوئی ہیں۔
ملک میں سب سے زیادہ ریونیو دینے والے تین کروڑ آبادی کے شہر کو اس کا جائز حق بھی نہیں دیا جارہا، این ایف سی ایوارڈ ابھی تک طے ہی نہیں ہوا جب تک طے نہیں ہوگا کہ کس کا کتنا حق ہے تو اس کو کیسے حق ملے گا، انہوں نے کہا کہ اب شہر میں کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جس کو کہا جائے کہ بہتر ہے پورا شہر تباہ ہورہا ہے، کسی کو فکر نہیں، سیوریج گلیوں میں بہہ رہا ہے، پینے کا پانی ہے نہیں، کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، سڑکیں تباہ ہیں، عوامی ٹرانسپورٹ ناپیدہے۔
شہری کس سے شکایات کریں، میں صوبہ اور ملک کے چیف ایگزیکٹو سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ کراچی کی اس خراب صورتحال کا سنجیدگی سے فوری نوٹس لیں، ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہوجائے، سابق وفاقی وزیر حاجی محمد حنیف طیب نے کہا کہ کراچی کے عوام بے وقوف نہیں ان کو سب معلوم ہے کہ کراچی کے حقوق کیوں نہیں دیئے جارہے اور کون روک رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : کراچی کی طلب کے مقابلے میں واٹر بورڈ کے پاس صرف 44فیصدپانی دستیاب