ہاتھوں سے معذور 35 سالہ کتب فروش نے عزم و ہمت کی مثال قائم کردی

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہاتھوں سے معذور 35 سالہ کتب فروش نے عزم و ہمت کی مثال قائم کردی
ہاتھوں سے معذور 35 سالہ کتب فروش نے عزم و ہمت کی مثال قائم کردی

ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں دونوں ہاتھوں سے معذور 35 سالہ کتب فروش  سکندر حیات نے عزم و ہمت کی مثال قائم کرتے ہوئے محتاجی کو شعار بنانے کی بجائے اپنی روزی خود کمانے کو عادت بنا لیا ہے۔ 

تفصیلات کے مطابق سکندر حیات کراچی کی مشہورومعروف ایمپریس مارکیٹ میں گزشتہ کئی سال سے کتابوں کا اسٹال لگا کر باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے معذوری کے باعث محتاجی قبول کرنے کی بجائے اپنی روزی ہمیشہ خود کمائی جس پر بے شمار شہریوں نے ان کی تعریف کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

سماجی کارکن بلقیس ایدھی کی نماز جنازہ ادا 

کہا جاتا ہے کہ ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا؟ سکندر حیات کا تعلق حافظ آباد سے ہے جو اپنے لڑکپن (14 سال) کی عمر سے ہی ایک خوفناک حادثے کے باعث دونوں ہاتھوں سے محروم ہو گئے اور پھر پنجاب کے بے شمار دیگر شہریوں کی طرح رزق کی تلاش کیلئے شہرِ قائد چلے آئے۔

روشنیوں کے شہر کراچی کی سب سے اہم بات اس کا غریب پرور ہونا ہے۔ پنجاب ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا سمیت ملک کے مختلف صوبوں اور شہروں سے آئے ہوئے لاکھوں شہریوں نے شہرِ قائد کو منی پاکستان بنا دیا ہے۔ سکندر حیات نے بھی یہاں محنت مزدوری شروع کردی اور کامیاب ہوئے۔

شہرِ قائد کے علاقے صدر میں کتابوں کا اسٹال لگانے والے سکندر حیات نے اپنی تمام تر زندگی فٹ پاتھ پر گزاری لیکن ان کی زبان پر کبھی کوئی شکوہ نہیں رہا کہ خدا نے انہیں کوئی گھر نہیں دیا یا وہ محروم ہیں اور اب روزی روٹی کماتے کماتے تھک کر دوسروں کے سائے میں کوئی ہمدردی کا زینہ تلاش کرنا چاہتے ہیں۔

تعلیم سے محروم سکندر حیات نے کتابوں کو ترتیب سے رکھنا اور گاہکوں کو کتابوں کی خصوصیات سے آگاہ کرنا سیکھ لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی کے لوگ مجھ سے اخبارات اور کتب خریدتے ہوئے پوری قیمت دینے میں لیت و لعل سے کام لیتے اور مول تول کرتے ہیں۔ اگر حکومت میری مدد کرے تو کتابوں کی ایک دکان بنانا چاہتا ہوں۔

واضح رہے کہ کراچی میں کتابوں کی خریدوفروخت سمیت دیگر بے شمار کاموں کی اپنی اہمیت اور انفرادیت ہے۔ محنت کشوں نے شہرِ قائد کو اپنا خون اور پسینہ دیا تو بدلے میں منی پاکستان نے انہیں الگ پہچان، روزی روٹی اور سر چھپانے کیلئے جگہ فراہم کی تاہم سکندر حیات کا پیشہ اتنا متمول نہیں کہ انہیں اپنا گھر میسر آسکتا، اس لیے وہ فٹ پاتھ پر ہی بس گئے۔ 

Related Posts