وزیر اعظم شہباز شریف

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

شہباز شریف پاکستان کے نئے وزیراعظم منتخب ہو گئے ہیں۔ تین دہائیوں تک سیاست میں رہنے اور تین بار وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد، انہوں نے اب وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا ہے، وزیر اعظم کے منصب پرمسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف فائز ہوتے، مگر انہیں اقتدار سے بے دخل کرکے تاحیات نا اہل قرار دے دیا گیا تھا۔

دیکھنے میں آیا ہے کہ شہباز شریف کے نواز شریف کے مقابلے میں ریاستی اداروں کے ساتھ بہتر تعلقات رہے ہیں، شہباز شریف اکتوبر 2023 تک اقتدار پر فائز رہ سکتے ہیں اور معیشت کو پٹری پر لانے کے لیے ایک عظیم کام کا سامنا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے قوم کو متحد کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انتقام نہیں لیا جائے گا بلکہ احتساب اپنا راستہ اختیار کرے گا۔

منتخب ہونے کے چند لمحوں بعد، شہباز شریف نے تنخواہوں اور پنشن میں اضافے اور بجلی کی قیمتوں میں کمی سمیت پرجوش ریلیف اقدامات کا اعلان کیا۔ ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے یہ ایک معمول کی حرکت تھی اور اصل صورت حال معیشت کی حالت معلوم ہونے کے بعد سامنے آئے گی۔ حکومت کے لیے اگلا بڑا کام یہ ہوگا کہ وہ بجٹ سازی کے عمل کو اپنے کنٹرول میں لے لے، جس کا اعلان چند ماہ میں کیا جاسکتا ہے۔

شہباز شریف نے چین، یورپ اور امریکہ کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہمارے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں اور ہم تنہائی میں نہیں رہ سکتے۔ شہباز شریف کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری آسکتی ہے کیونکہ یہ تعلقات عمران خان کے دور حکومت میں بالکل معدوم ہوگئے تھے، اور عمران خان نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ انہیں ہٹانے کے لئے ایک غیر ملکی سازش کی گئی تھی۔ شہباز شریف بھارت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا مودی حکومت کشمیر کے مسئلے پر ردِ عمل ظاہر کرے گی یا نہیں۔

شہباز شریف پارلیمنٹ میں ہموار سفر کریں گے کیونکہ پی ٹی آئی نے استعفیٰ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کرپشن کے الزامات لگانے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔ اگر پی ٹی آئی واقعی بڑے پیمانے پر استعفے دے دیتی ہے تو الیکشن کمیشن کے لیے سینکڑوں حلقوں پر ضمنی انتخابات کروانا بہت بڑا کام ہو گا۔ دیکھنا ہوگا کہ نواز شریف کا دور اقتدار کب تک رہے گا۔

شہباز شریف کے لیے ایک اور بڑا چیلنج وفاقی کابینہ کی تشکیل کا ہے۔ وہ اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار تھے اور انہیں تحریک عدم اعتماد کے دوران حمایت کرنے پر اتحادیوں کو انعام دینا ہوگا۔ جو اتحاد بنایا گیا ہے وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے۔ مثالی بات یہ ہوگی کہ عوام کا مینڈیٹ حاصل کیا جائے اور پارلیمنٹ میں حالات کو معمول پر لانے کے لیے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جائے۔

Related Posts