آئینی بحران

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 63 اے سے متعلق صدارتی ریفرنس لارجر بنچ میں سننے کا فیصلہ کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ عدم اعتماد سیاسی معاملہ ہے، سیاسی جنگ پارلیمنٹ میں لڑی جائے، کسی کو ووٹ سے نہیں روکا جاسکتا، جمہوریت برقراررکھنے کیلئے مصالحت کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

صدارتی ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ ووٹ کی خریداری کو روکنے کیلئے 63 اے اور 62 ایف کی تشریح کی جائے اور منحرف ارکان کا ووٹ متنازع سمجھا جائے،نااہلی کا فیصلہ ہونے تک منحرف ووٹ گنتی میں شمار نہ کیا جائے۔

سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جمعیت علماءاسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، اپوزیشن لیڈرشہباز شریف اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے علاوہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر مینگل نے مؤقف اختیار کیا کہ اسپیکر نے 25 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا ہے حالانکہ آرٹیکل54(3) کے تحت 14 دن میں اجلاس بلانا لازم ہے، 14 دن سے زیادہ اجلاس میں تاخیر کرنے کا کوئی استحقاق نہیں، حزب اختلاف کی ریکوزیشن 8مارچ کو جمع ہوئی اس حساب سے 22 مارچ کو اجلاس طلب کرنا آئینی تقاضا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ خود مختار ادارہ ہے اور پارلیمانی جمہوریت میں پارلیمنٹ کو مرکزیت حاصل ہے، ہم پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتے، تمام سیاسی طاقتیں احتیاط اور ذمہ داری کا مظاہرہ کر کے جمہوریت کو مضبوط کریں، تمام سیاسی جماعتیں اجتماعی سیاسی دانش، ہم آہنگی، وقار اور بالغ نظری سے معاملہ حل کریں۔

اپوزیشن کی جانب سے اسپیکر قومی اسمبلی کیخلاف آئین کی خلاف ورزی پر کارروائی پر زور دیا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کا کہنا ہے کہ ملک میں آئینی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ تاہم عدلیہ جمہوریت کے تحفظ کیلئے کردار ادا کرنے کی خواہاں ہے۔

پاکستان میں جمہوری نظام سیاستدانوں کی آپس کی چپقلش اور رسہ کشی کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار رہا ہے اور ملک میں ایک بار پھر سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے اور اداروں کو متنازعہ بناکر ملک کو مزید مشکلات میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اسپیکر قومی اسمبلی آئین پر عمل کرنے کے پابند ہیں تاہم تحریک عدم اعتماد پر اجلاس میں تاخیر پر اپوزیشن معترض ہے ۔ اپوزیشن کو بھی تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ تحریک کیلئے اجلاس 21 مارچ کے بجائے اگر 25 مارچ کو بھی ہوتو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ملک میں او آئی سی کانفرنس ہورہی ہے اور پوری دنیا کی نظریں پاکستان کی طرف لگی ہیں لیکن ایسے میں سیاسی عدم استحکام سے کسی سیاسی جماعت کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

تحریک عدم استحکام کو اپنے تئیں کامیاب یا ناکام بنانے کیلئے کوشش کرنا حکومت اور اپوزیشن کا حق ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک جمہوری عمل کے دوران غیر آئینی اقدامات اور جمہوریت کو کمزور کرنے سے گریز کیا جائے تاکہ ملک سیاسی عدم استحکام سے محفوظ رہ سکے۔

Related Posts