ہائی بلڈ پریشر کے مریض ذیابیطس کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟ وجہ دریافت

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہائی بلڈ پریشر کے مریض ذیابیطس کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟ وجہ دریافت
ہائی بلڈ پریشر کے مریض ذیابیطس کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟ وجہ دریافت

ہم دیکھتے ہیں کہ ہائی بلڈ پریشر کے متعدد مریض ذیابیطس کے بھی شکار ہوجاتے ہیں اور اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے مگر اب طبی ماہرین نے یہ راز جان لیا ہے۔یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

برطانیہ کی برسٹل یونیورسٹی اور نیوزی لینڈ کی آک لینڈ یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ایک پروٹین سیل جی ایل پی 1 جسم کے بلڈ شوگر اور بلڈ پریشر دونوں کو کنٹرول کرتا ہے۔

محققین نے بتایا گیا کہ ہم طویل عرصے سے جانتے ہیں کہ فشار خون اور ذیابیطس ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور آخرکار اب ہم اس کی وجہ جان گئے ہیں، جس سے نئے علاج کو تشکیل دینے میں مدد مل سکے گی۔

جی ایل پی 1 معدے میں کھانے کے عد خارج ہوتا ہے اور انسولین کو متحرک کرنے کا کردار ادا کرتا ہے تاکہ بلڈ شوگر کی سطح کو کنٹرول کرسکے، یہ تو پہلے سے علم تھا مگر جاکر معلوم ہوا ہے کہ یہ پروٹین سیل گردن میں واقع ایک سنسری عضو کیروٹیڈ کو ھبی متحرک کرتا ہے۔تحقیق میں جینومک تیکنیک آر این اے سیکونسنگ کو استعمال کرکے چوہوں کے جسم میں جینز کے تاثرات کو جانا گیا۔

تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یہ جانور ہائی بلڈ شوگر سے محفوظ تھے اور اس سے دریافت ہوا کہ کیروٹیڈ میں ریسیپٹر جی ایل پی 1 کو محسوس کرتا ہے مگر یہ ریسیپٹر فشار خون سے متاثر چوہوں میں زیادہ متحرک نہیں ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں:

زندگی کے آخری لمحات میں انسانی دماغ کے اندر کیا ہوتا ہے؟

تحقیق میں محققین نے بتایا کہ ہم نے کبھی توقع بھی نہیں کی تھی کہ جی ایل پی 1 کے اس کردار کو دیکھیں گے تو یہ بہت زبردست دریافت ہے،انہوں نے بتایا کہ کیروٹیڈ وہ مقام ہے جہاں جی ایل پی 1 بلڈ شوگر اور بلڈ پریشر کو بیک وقت کنٹرول کرتا ہے۔

واضح رہے کہ فشار خون یا ذیابیطس کے مریضوں میں جان لیوا دل کی شریانوں کی پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ ادویات کے استعمال کے بعد بھی خطرہ برقرار رہتا ہے۔

Related Posts