ہیومن رائٹس واچ نے اپنی عالمی رپورٹ 2022 میں پاکستان میں شہری حقوق کی خلاف ورزیوں کی پریشان کن حد تک بھیانک تصویر کشی کی ہے۔ پاکستان کے بارے میں عالمی رپورٹ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستانی حکام نے اختلاف رائے کو دبانے کے لیے سخت غداری اور انسداد دہشت گردی کے قوانین کے استعمال کو بڑھایا، اور حکومتی اقدامات یا پالیسیوں پر تنقید کرنے والے سول سوسائٹی کے گروپس کو سختی سے قابو کئے رکھا۔
کسی بھی جمہوریت میں اختلاف رائے انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے، معاشرے کے اندر توازن برقرار رکھنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ اختلاف رائے کے بغیر، ترقی کرنا مشکل ہے اور لوگوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ان کی قوم اور ان کی منتخب حکومت کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، پاکستانی حکومت نے میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوششیں تیز کیں، ہراساں کیا گیا اور بعض اوقات آزاد سوچ رکھنے والے صحافیوں اور سول سوسائٹی کے سرگرم کارکنوں کو حراست میں لیا۔ میڈیا ہاؤسز پر حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو نوکری سے نکالنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیوں کے ذمہ دار ہیں، جن میں بغیر کسی الزام کے حراست اور ماورائے عدالت قتل شامل ہیں۔ مارچ میں، پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ان لوگوں کے خاندانوں سے ملاقات کی جنہیں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ ان کے خدشات کو دور کیا جائے گا۔ تاہم، ان کی حکومت نے کسی بھی معاملے میں تحقیقات کا اعلان نہیں کیا۔
اقوام متحدہ کے تشدد کے خلاف کنونشن کے تحت ایسا کرنا پاکستان کی ذمہ داری تھی مگر اس کے باوجود پاکستان نے ابھی تک تشدد کو جرم قرار دینے والا قانون نافذ نہیں کیا۔ جولائی میں، پاکستان کی سینیٹ نے متفقہ طور پر ایک انتہائی اہم بل کی منظوری دی تھی جس میں پولیس تشدد کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا اور پولیس حراست میں ہونے والی اموات کو روکنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم ابھی تک قانون پاس نہیں ہوا۔
خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد، بشمول عصمت دری، قتل، تیزاب کے حملے، گھریلو تشدد، اور جبری شادی، پورے پاکستان میں عام ہے۔ مذہبی اقلیتوں کی جبری تبدیلی اور ان کی عبادت گاہوں پر حملوں کے واقعات بھی جاری رہے جب کہ حکومت ان کے تحفظ کے لیے مناسب قانون سازی کے اقدامات کرنے میں ناکام رہی۔
کئی میڈیا واچ ڈاگ باڈیز اور شہری حقوق کی تنظیمیں حالات کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو اکثر اجاگر کرتی رہی ہیں۔ بدقسمتی سے، حکومت نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی اور اس کے بجائے الزام واپس میڈیا اور شہری حقوق کے کارکنوں پر ڈال دیا ہے۔
شہری حقوق کی لڑائی بنیادی طور پر بے اختیار لوگوں کی لڑائی ہے۔ ماضی میں کئی حکومتیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق ایسی رپورٹس کو مسترد کر چکی ہیں۔ ملک میں انسانی حقوق کا احترام صرف اسی صورت میں قائم ہو سکتا ہے جب ریاست اپنے طرز عمل کو تسلیم کرنے اور اسے درست کرنے کے لیے تیار ہو۔