مسلم دنیا میں نفاق یاسازش؟

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

دنیا کے بدلتے ہوئے تیور، علاقائی اور بین الاقوامی اقدار کی نت نئی ڈگر پر مسلمہ امہ ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے کہ جہاں اسلامی ممالک کے کئی گروہ نہ صرف ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوچکے ہیں بلکہ بڑے ظالمانہ طریقے سے خون کی ہولی بھی کھیلی جارہی ہے۔

دنیا کی طاقتور قوتیں اپنے مفاد اور عزائم کی تکمیل کیلئے امت مسلمہ کے تمام ممالک سے جنگجوؤں کو مجاہدین کے نام پر اشتراکی قوتوں سے لڑواتی رہی ہیں۔ اتفاق سے پاکستان اس معرکہ میں پیش پیش رہا ہے۔ یہ ویٹو پاور کی حامل منہ زور مغربی قوتیں مسلمانوں کو ہمنوا بناکر روس جیسے ملک کو کافر گردانتے ہوئے ان کے جذبات اس حد تک بھڑکادیتی ہیں کہ لوگ اپنا تن من دھن گنوا کر جہاد کیلئے نکل پڑتے ہیں۔

معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ یہ قوتیں تفرقہ مسلم ممالک میں پہلے ہی موجود دراڑوں کو بڑھاوا دیتے ہوئے آپس میں گردن زنی کروانے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔نتیجتاً بیشتر مسلم ممالک کمزور سے کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں اور مجبوراً اپنے آقاؤں کے اشاروں پر چلنا ان کا مسلک بن جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس قسم کے جہاد نے اسلام کی اشاعت و تشہیر میں کوئی قابل ذکر کردار ادا کیا ہے؟  ہمارا پھلتا پھولتا اور پرسکون وطن 60ء کی دہائی میں جس تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا اور ترقی کے مراحل کو احسن طریقہ سے عبور کررہا تھا ، کوئی وجہ نہ تھی کہ ملک اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)کی واحد جوہری قوت کے ساتھ معاشی قوت کا سرچشمہ نہ بن پاتا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ دشمنوں نے نت نئے کھیل ، کھیل کر ہمارے لئے ایسے حالات پیدا کردیئے کہ آج ہم ترقی کے بجائے پسماندگی کی جانب تیزی سے گامزن ہیں اور ہماری کمر صرف معیشت نے ہی توڑ رکھی ہے اور معیشت سے ٹوٹی کمر والی قوم آگے بڑھنے میں ہمیشہ ناکامی کا سامنا کرتی ہے اور شاید یہی ان مخالف قوتوں کا وطیرہ تھا ۔

پاکستان کی جوہری طاقت اسرائیل اور بیشتر مغربی ممالک کی نظروں میں شروع سے کھٹکتی رہی ہے اور اب تو نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ ہمارے ملک کے سیاسی ایوانوں میں اس کی گونج گونجنا شروع ہوگئی ہے اور جمعرات کے روز منی بجٹ کے دوران جوہری قوت دشمنوں کی نظروں میں کھٹکنے کا ذکر بھی آیااور پاکستان کا مرکزی بینک بھی آئی ایم ایف کے اختیار میں دینے کی صدائیں گونج رہی ہیں جس سے ملک کی خودمختاری بھی متزلزل ہوسکتی ہے۔

اب یہ بات وطن عزیز کے ہر فرد پر واجب ہے کہ ملک کے معاشی معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے بلکہ جہاد کرے (جہاد کا مطلب صرف قتل و غارت گری نہیں ہے) تاکہ ہم ناصرف اپنی عسکری ضروریات کو پورا کرسکیں بلکہ ملک کی معاشی اور معاشرتی ضروریات کو دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلائے بغیر پورا کرسکیں۔ ہمارا یہ معاشی دلدل جو تقریباً 50کھرب روپے کے اندرونی و بیرونی قرضوں پر محیط ہے اس میں غیروں کے علاوہ ہمارا اپنا بھی قصور ہے۔

بقول محسن نقوی

یہ جو آوارگئی شبنم ہے اس میں کچھ جرم آفتاب بھی ہے

کون نہیں جانتا کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی دوطرفہ قرضے کی رقم اور دیگر ملکی وسائل کی نہ صرف خرد برد بلکہ لوٹ مار کی دوڑ ہر دور کا شاخسانہ رہی ہے۔اس بات پرہر حلقہ میں بحث و تکرار جاری ہے لہٰذا اسے یہیں چھوڑ کر اصل موضوع کی جانب چلنا مناسب ہوگا۔

امت مسلمہ گروہوں اور دھڑوں اور مذہبی تفرقوں میں بانٹ کر اس نہج پر پہنچادیا گیا ہے کہ کافر مسلمانوں کے ہر فقہ اور طبقہ کو مسلمان ہی سمجھتا ہے جبکہ مسلمان اپنے سے مختلف فرقے کو کافر قرار دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا ۔

وطن عزیز کے وہ لرزہ خیز مناظر آج تک ذہنوں پر ثبت ہیں جس میں اس ملت کے بہادر سپاہیوں کے سرتن سے جدا کرکے فٹ بال کھیل گئی۔دنیائے اسلام میں اس حد تک انتشار واختلاف برپا کردیا گیا ہے کہ بات جنگ و جدل تک پہنچ گئی ہے اور آنیوالے وقتوں میں مسلم دنیا میں خلیج مزید گہری ہوسکتی ہے اورایران کیخلاف دیگر مسلم ممالک کی حالیہ صف بندیاں اس بات کی غمازی کرتی ہیں ۔

اسلامی دنیا میں اکثر ممالک پاکستان کے بڑے پن کو اب بھی مانتے ہیں لیکن ہم اپنی خارجہ پالیسی کو علاقائی اوربین الاقوامی تناظر میں ڈھالنے میں بتدریج ناکام رہے ہیں اور اب بھی اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت کی توقع نہیں کی جاسکتی

Related Posts