پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں اپنی پارٹی کی شاندار کارکردگی سے حوصلہ پاکرایک بار پھر اسلام آباد کی طرف مارچ کے لیے اپنے اتحادیوں کوجوڑ رہے ہیں۔
کثیر الجماعتی حکومت مخالف اتحاد جو پی پی پی اور اے این پی کے غیر رسمی طور پر رخصت ہونے کے بعد اپنی رفتار کھو بیٹھا تھا اس نے 23 مارچ کو دارالحکومت کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔
یہ تاریخ اہم ہے کیونکہ اس روز اسلام آبادمیں یوم پاکستان کی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے اورفوجی پریڈ اور یوم پاکستان کی تقریبات کے باعث وفاقی دارالحکومت میں سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ 27 مارچ کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے سے کچھ ہی دن پہلے ہیں۔
حکمراں جماعت پی ٹی آئی کو خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں مایوس کن کارکردگی کا سامنا کرنا پڑا، وہ صوبہ جہاں اس کی سب سے بڑی حمایت کا دعویٰ ہے وہاں جمعیت علماء اسلام نے حیرت انگیز طور پر اپنے اتحادیوں اور حریفوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔
2002 میں ایم ایم اے کے مذہبی اتحاد کی جیت کے بعد سے جے یو آئی ف کبھی بھی بہتر پوزیشن میں نہیں تھی جبکہ حالیہ کامیابی نے مستقبل میں سیاسی منظر نامے کو نئی شکل دی۔اس سے پہلے کہ پی ٹی آئی اپنے روایتی حریف بن کر ابھرے۔انتخابی نتائج نے یقینی طور پر مولانا فضل الرحمان کو ایک بار پھر اپنے دشمن کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی لیکن اعلیٰ طاقتیں بلدیاتی انتخابات میں ’غیرجانبدار‘ تھیں۔ اس سے یہ خدشات بڑھ گئے ہیں کہ آیا جے یو آئی ف نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی معاہدہ کیا ہے یا اسے افغانستان کی صورتحال کے اثرات کا سامنا ہے۔
پی ڈی ایم کے پاس حکومت کے خلاف کوئی ٹھوس ایجنڈا نہیں ہے، سوائے اس دعوے کے کہ مہنگائی نے زندگی اجیرن کر دی ہے اور موجودہ صورتحال سے نکلنا اب ان کی ذمہ داری ہے۔
شاید یہ جے یو آئی ف کے سربراہ کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے جو گزشتہ چند سالوں سے سیاسی نظام سے باہر رہنے کے بعد ایک بڑا دھچکا لگانا چاہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کویقین ہے کہ سیاسی گلیاروں میں تبدیلی کی ہوائیں چلنا شروع ہو گئی ہیں اور اس کے اثرات بلدیاتی انتخابات میں بھی محسوس ہوں گے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان بدلتی سیاسی فضاؤں کو اپنے حق میں کیسے کرتے ہیں اور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا اپوزیشن جماعتیں مولانا فضل الرحمان کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلیں گی یا نہیں۔