چند ہفتے قبل ہی لکھ چکا ہوں کہ مولانا فضل الرحمن کے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے حوالے سے معاملات طے پاچکے۔ سو خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات اس کا واضح ثبوت ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں کہ مولانا کے لئے ڈبے بھرے گئے یا آگے چل کر جنرل الیکشن میں بھی ڈبے بھرنے کا کوئی منصوبہ ہے۔
اسٹیبلشمنٹ انتخابات پر دو ہی صورتوں میں اثر انداز ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ کچھ خاص حالات میں، خاص مقاصد کے لئے کوئی خاص جماعت اقتدار میں مطلوب ہو۔ اور دوسری یہ کہ کسی جماعت کا اقتدار میں آنا منظور نہ ہو۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن 2018 کے الیکشن کے بعد سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک سخت موقف لےکر چل رہے ہیں۔
اسی سخت، واضح اور دو ٹوک موقف کے سبب پہلی بار پنجاب اور سندھ میں بھی ان کی حمایت نظر آتی ہے۔ ورنہ جے یو آئی صرف خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی حد تک جڑیں رکھنے والی جماعت ہے۔
ایسا نہیں کہ جے یو آئی میں کوئی خرابی ہے جس کے سبب پنجابی ووٹر اسے ووٹ نہیں دیتابلکہ مسئلہ یہ ہے کہ یہ تاریخی طور ثابت شدہ حقیقت ہے کہ پنجاب اور سندھ کے لوگوں کا مزاج یہ ہے کہ یہ اہل مذہب میں سے صرف فتنہ پرور عناصر کو ووٹ دیتے ہیں۔
آپ پنجاب کی کسی بھی سیٹ پر جماعت اسلامی، جے یو آئی یا جے یو پی کے امیدوار کے مقابلے میں بریلوی یا دیوبندی مسلک کی کسی فتنہ پرور جماعت کا امیدوار کھڑا کردیں، جیت فتنے کی ہوگی۔ یہ صرف خیبر پختون خوا اور بلوچستان ہے جہاں مذہبی فتنوں کو نہیں بلکہ مثبت اپروچ رکھنے والی مذہبی جماعتوں کو لاکھوں ووٹ ملتے ہیں۔
ان دونوں صوبوں میں اس وقت مولانا فضل الرحمن اپنے حالیہ سالوں کے موقف کے سبب بہت اہمیت اختیار کرگئے ہیں لیکن اس اہمیت کے باوجود ان کی کامیابی صرف اسی صورت یقینی ہوسکتی تھی جب اسٹیبلشمنٹ کو یہ اعتماد حاصل ہو کہ اختیار پانے کے بعد وہ اسی مزاحمانہ طرز عمل پر نہیں چلیں گے۔ بلدیاتی نتائج سے صاف واضح ہے کہ یہ یقین دلا دیا گیا ہے کہ ان کا اختیار اسٹیبلشمنٹ کے لئے درد سر نہیں بنے گا۔ اور یہ اچھی بات ہے۔
ہرچند کہ مولانا فضل الرحمن اپنے 2018 کے بعد والے موقف کے سبب اب پنجاب میں بھی حمایت رکھتے ہیں۔ لیکن یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ حمایت اتنی پھر بھی نہیں کہ اس کے دم پر آنے والے انتخابات میں پنجاب سے سیٹیں نکالی جاسکیں۔
یہ فی الحال اتنی ہی ہے کہ اس کے ہوتے لازم ہے کہ جے یو آئی اگلے انتخابات میں پنجاب اور سندھ سے بھی اپنے امیدوار ضرور کھڑے کرے۔ اگر اس جماعت نے ایسا کیا تو بیلٹ بکسز سے مجموعی طور اتنے ووٹ ضرور نکلیں گے جو سیاسی تجزیوں کا موضوع بنیں گے۔
ان ووٹوں کی اہمیت یہ ہوگی کہ غیر وابستہ پنجابی ووٹر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جے یو آئی کی کار کردگی کو بغور دیکھنا شروع کردے گا۔ اگر یہ جماعت وہاں قابل ذکر کار کردگی دکھا پائی تو اس کا اثر یقیناً پانچ چھ سال بعد والے انتخابات میں پنجاب میں بھی نظر آئے گا۔ یعنی جو بھی ہوگا بتدریج ہوگا۔
پنجاب میں کامیابی کے لئے جے یو آئی اور جماعت اسلامی کو پنجابی ووٹر کی سائیکی سمجھنا ہوگی۔ آپ پنجاب سے مذہب کے نام پر ملین مارچ تو نکال سکتے ہیں لیکن ووٹ ہرگز نہیں لے سکتے۔ ان صوبوں میں ان پڑھ ووٹر کم اور پڑھے لکھے ووٹر زیادہ ہیں۔ پڑھا لکھا ووٹر جذبات نہیں لاجک کی بنیاد پر ووٹ دیتا ہے۔ جب بات لاجک کی آئے تو وہ روٹی، کپڑا اور مکان یعنی انسان کے بود و باش سے متعلق مسائل کو ہی ترجیح دیتی ہے۔
یہی چیز ہم نے مصر اور ترکی کے فرق میں بھی دیکھی۔ ترکی میں طیب اردگان اور مصر میں محمد مرسی مذہبی قوت کے طور پر سامنے آئے۔
ان میں سے محمد مرسی نے اقتدار سنبھالتے ہی مذہبی ڈنڈا اٹھا لیا اور دنیا کو یہ باور کرانے کی کوششیں شروع کردیں کہ بالآخر مصر میں اخوانی “مذہبی انقلاب” برپا ہو گیا۔ اور یوں شروع ہوگئی”نہیں چھوڑوں گا” والی پالیسی جو عام طور پر انقلابیوں کی بعد از کامیابی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔
ہم فرانس، روس، چین، کیوبا اور ایران میں اسے دیکھ چکے۔ محمد مرسی سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے انتخابی جیت کو انقلاب سمجھ لیا۔
دنیا میں آج تک ووٹ کے ذریعے کوئی انقلاب نہیں آیا۔ فرانس، روس، چین، کیوبا اور ایران میں انقلابات اسی شکل میں آئے تھے جو انقلاب کی شکل ہوا کرتی ہے۔
چنانچہ ان انقلابات میں جب پہلی ترجیح کے طور پر انتقام سامنے آیا تو اس نے انقلاب کو متاثر نہیں بلکہ مستحکم کیا۔ انقلاب اس عوامی بغاوت اور تصادم کا نام ہے جس کی روح غصہ ہوا کرتا ہے۔ چنانچہ یہ جب آتا ہے تو اس کلاس کو کچل ڈالتا ہے جس کے خلاف اٹھا ہوتا ہے۔ ہم کتابی طور پر یہ کہہ سکتے ہیں انتقام بری چیز ہے۔ قتل ہر حال میں غلط ہی ہوتا ہے۔
لیکن عملاً یہ ممکن ہی نہیں کہ انقلاب آئے اور انتقام نہ لے۔ محمد مرسی آئے تو ووٹ کے ذریعے تھے اور ایکٹ انقلابی کی طرح کر رہے تھے تو نتیجہ وہی نکلنا تھا جو نکلا۔ اگر مصر میں واقعی انقلاب آیا ہوتا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ رول بیک کردیا جاتا۔ جو منطقی نتیجے تک نہ پہنچ پائے وہ انقلاب نہیں ہوتا۔ اسے انقلاب کا نام ملتا ہی تب ہے جب وہ کامیاب ہوجائے ورنہ ناکام بغاوت کہلاتا ہے۔
محمد مرسی کے مقابلے میں طیب اردگان نہایت بالغ نظر ثابت ہوئے۔ وہ جانتے تھے کہ ان جیت ایک انتخابی جیت ہے، انقلاب نہیں۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس جیت میں کلیدی رول اس کار کردگی کا ہے جو انہوں نے استنبول کے میئر کے طور پر دکھائی ہے۔
وہ کارکردگی دنیا کے چند گندے ترین شہروں میں سے ایک کومثالی شہر بنانا تھا۔ چنانچہ وہ پورا ادراک رکھتے تھے کہ بطور وزیر اعظم وہ اسی صورت مستحکم ہوسکتے ہیں جب استنبول والی کار کردگی پورے ملک میں دکھا دیں۔
انہوں نے ترک شہریوں کے معاشی مسائل کو پہلی ترجیح رکھا۔ اور یقین جانیئے یہ عین اسلامی ہی تھا۔ جب اسلام یہ کہتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے، تو کون کافر کہہ سکتا ہے کہ استنبول کو پاک صاف شہر بنانا دینی نہیں بلکہ دنیوی عمل تھا ؟ جب اسلام یہ کہتا ہے کہ اپنے پڑوسی کی خبر گیری رکھئے کہ بھوکا تو نہیں، تو کون کافر کہہ سکتا ہے کہ پورے ملک کے شہریوں کا پیٹ بھرنے کے لئے ملک کو معاشی ترقی دینا دینی نہیں بلکہ دنیوی عمل ہے؟ جب اسلام یہ کہتا ہے کہ مریض کی تیمار داری کیا کر،و تو کون کافر کہہ سکتا ہے کہ بطور وزیر اعظم صحت کے شعبے کو ترقی دینا دینی نہیں بلکہ دنیوی عمل ہے ؟جب اسلام یہ کہتا ہے کہ اپنے دفاع کے لئے حربی قوت کا بھرپور بند و بست رکھا کرو، تو کون کافر کہہ سکتا ہے کہ جے ایف 17 بنانا دینی نہیں دنیوی عمل ہے ؟۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے مذہبی رہنماؤں کی تقاریر سے یہ بالکل عیاں ہے کہ ان کا اسلامی نظام کا تصور ان چند مذہبی نعروں کے گرد ہی گھومتا ہے جن کی مدد سے چندے کی صورت ان کے اپنے معاشی مسائل تو حل ہوجاتے ہیں مگر عام شہری کو “ثواب” کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ اگر ثواب پہلی ترجیح ہوتا تو امام ابوحنیفہ یہ مسئلہ کیوں بیان کرتے کہ اگر بھوک لگی ہو تو پہلے کھانا کھاؤ، بعد میں نماز پڑھو ؟ وہ اسلامی نظام کوئی کیسے قبول کرسکتا ہے جس کی جیل میں بیٹھے چور کو یہ سوچ کر اندھیری رات میں بے آواز رونا پڑے کہ عجیب اسلامی حکمران ہیں، روزگار تو فراہم نہیں کرتے مگر بیروزگار چور کا ہاتھ کاٹنا ثواب سمجھتے ہیں۔
خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے مولانا فضل الرحمن اپنی عمر کے آخری دور میں ہیں۔ اس آخری دور میں اگر وہ مذہبی سیاست کا رخ روایتی نعروں سے عوامی خدمت کی طرف موڑ دیں تو آنے والی نسلیں بھی ان کی احسان مند رہیں گی۔ لیکن اگر وہ اب بھی وہی روایتی مذہبی سیاست کرتے رہے کہ ووٹ تو شہریوں سے لیں اور نعرے مدارس کے ان طلبہ کو خوش کرنے والے لگائیں جن کے سرے سے ووٹ ہی نہیں ہوتے، تو پھر ان کی جیت ان کے لئے تو باعث ثواب ہوسکتی ہے لیکن ہم عام شہریوں کے یہ کسی کام کی نہیں۔
ہم اپنا ثواب خود کما سکتے ہیں۔ ہمیں سیاستدان سے ثواب نہیں اپنے مسائل کا حل چاہئے۔ سو انہیں بلدیاتی انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے بصد احترام عرض ہے کہ اب ہم دیکھیں گے کہ آپ اب بھی صرف ثواب کی سیاست کرتے ہیں یا خدمت کے ثواب کی۔
اگر صرف ثواب کی سیاست کرنی ہے تو ثواب تو صرف اللہ ہی دے سکتا ہے، وہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ ہم تو صرف ووٹ دے سکتے ہیں۔ کراچی میں رکھا ہمارا ووٹ چاہئے تو خیبر پختون خوا میں خدمت کی سیاست کرکے دکھائیے !۔