افغانستان کا بحران

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

افغانستان میں طالبان کی حکومت کو اب 5 ماہ ہو چکے ہیں لیکن وہاں کی صورتحال کسی بھی طرح مستحکم نہیں کہی جاسکتی۔ 20 سالہ افغان امریکا جنگ ختم ہو چکی ہے تاہم  ملک اب ایک انسانی المیے کے دہانے پر ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کے متعدد متعلقہ اداروں نے افغانستان میں معاشی تباہی کے ساتھ ساتھ سنگین انسانی مسائل پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

سول سوسائٹی اور متعلقہ حکومتوں خصوصاً پڑوسیوں کی طرف سے بھی افغانستان کے مسائل حل کرنے کیلئے کافی تگ دو سامنے آئی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق افغانستان کے 3 کروڑ 80 لاکھ افراد میں سے تقریباً 60 فیصد غذائی بحران سے متاثر ہوں گے۔ صرف 5 فیصد آبادی کے پاس کھانے کے لیے کافی مقدار میں غذا موجود ہے جو کافی نہیں اور ہنگامی انسانی امداد میں تاخیر کے باعث صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔

بین الاقوامی خوراک پروگرام  کا تخمینہ ہے کہ افغانستان میں 32 لاکھ بچے شدید غذائی قلت کے خطرے سے دوچار ہیں۔  یو این ڈی پی کو خدشہ ہے کہ اگر انسانی المیے سے نمٹنے کیلئے فوری اقدامات نہ اٹھائے گئے تو 97 فیصد افغان عوام غربت کی لکیر سے نیچے آ سکتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے  گزشتہ روز او آئی سی وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس کو منعقد کرنے میں پہل کرکے نہ صرف اس کے اراکین بلکہ دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ مختلف بین الاقوامی تنظیموں کے اہم عہدیداروں کی بھی ٹھوس شرکت کو یقینی بنایا جو ایک احسن اقدام کہا جاسکتا ہے۔

پاکستان طالبان حکومت کے ساتھ عالمی برادری کی زیادہ مشغولیت پر زور دینے میں سب سے آگے رہا ہے کیونکہ افغانستان میں عدم استحکام آنے کی صورت میں پاکستان کو ہی سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ایسے آثار پہلے ہی موجود ہیں کہ تشدد کسی بھی وقت بھڑک سکتا ہے۔ افغانستان میں داعش کی طرف سے تشدد کے مختلف واقعات نے ملک میں عدم تحفظ کی صورتحال واضح کردی ہے۔

او آئی سی کا غیر معمولی اجلاس پاکستانی حکومت کی طرف سے اٹھایا گیا بہترین اقدام تھا اور شریک ممالک کے لیے اس اجلاس میں کی گئی گزارشات کو اولین ترجیح کے طور پر سننا ضروری تھا تاہم، وفد میں شامل طالبان کے نمائندوں کے لیے یہ سننا بھی اتنا ہی ضروری تھا کہ دنیا ان کے بارے میں کیا سوچتی ہے۔

گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے او آئی سی کے اجلاس میں کی گئی اپنی تقریر میں بجا طور پر کہا کہ اگر عالمی برادری نے انسانی المیے سے نمٹنے کیلئے فوری اقدامات نہ اٹھائے تو افغانستان ممکنہ طور پر دنیا کا سب سے بڑا انسان کا پیدا کیا ہوا بحران بن سکتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ امریکہ کو 4 کروڑ افغان شہریوں سے طالبان حکومت کو غیر منسلک کرنا چاہیے۔ واشنگٹن 20 سال سے طالبان کے ساتھ حالتِ جنگ میں رہا ہے لیکن یہ المیہ افغان عوام کے ساتھ پیش آسکتا ہے جس کے تدارک کی ضرورت ہے۔

غور کیا جائے تو اس وقت افغانستان تلوار کی دھار پر کھڑا ہے اور عالمی برادری کو صبر و تحمل سے کام لینا ہوگا اور درست طریقے سے عوامی مسائل حل کرنے کو ترجیح دینا ہوگی کیونکہ یہ کوئی ملک نہیں چاہے گا کہ افغانستان افراتفری کا شکار ہو۔ طالبان اچھی طرح جانتے ہیں کہ مالی وسائل کے بغیر حکمرانی ممکن نہیں۔ افغان عوام کو طالبان کے خلاف دنیا کی دشمنی کی قیمت ادا کرنے سے بچانا ہوگا۔

ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان میں آنے والی انسانی تباہی سے نمٹنے کے لیے ایک مضبوط عالمی ردعمل کی ضرورت ہے۔ انسانی امداد کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے۔ معاشی تباہی افغان عوام کی حالت زار کو مزید خراب کر سکتی ہے۔

Related Posts