مولانا ہدایت الرحمان کی زیر قیادت ’گوادر کو حق دو‘ تحریک کیا ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مولانا ہدایت الرحمان کی زیر قیادت ’گوادر کو حق دو‘ تحریک کیا ہے؟
مولانا ہدایت الرحمان کی زیر قیادت ’گوادر کو حق دو‘ تحریک کیا ہے؟

خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں افراد نے جماعت اسلامی بلوچستان کے جنرل سیکرٹری مولانا ہدایت الرحمان کی قیادت میں ’گوادر کو حق دو‘ تحریک کی حمایت میں گوادر کی مرکزی شاہراہوں پر مارچ کیا۔

گوادر، تربت، پشکان، زامران، بلیدہ، اورماڑہ اور پسنی کے مظاہرین (گوادر کو حقوق دو) تحریک میں حصہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

احتجاج:

مولانا ہدایت الرحمان کی قیادت میں بندرگاہی شہر گوادر کے لوگوں نے 26 روز قبل ’گوادر کو حق دو‘ تحریک کا آغاز کیا۔

جلوس کے شرکاء نے اپنے مطالبات کے حق میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چوک سے مارچ شروع ہوا۔ جس میں صوبائی حکومت کے خلاف نعرے ہورہی تھی۔

مولانا ہدایت نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اوتھل کے مقام پر کوسٹل ہائی وے کو بند کر دیا، بسوں، کوچوں اور دیگر گاڑیوں کو روکا جو لوگوں کو گوادر کی طرف لے جانے والے تھے کیونکہ کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں سے ہزاروں لوگ اس دھرنے میں میں شامل ہونا چاہتے تھے۔

مولانا ہدایت نے کہا کہ آج کے جلوس اور دھرنے میں لاکھوں افراد کی شرکت دراصل صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے خلاف ریفرنڈم ہے اور عوام اپنے حقوق کے حصول تک اپنی جدوجہد اور احتجاج جاری رکھیں گے۔

مطالبات کیا ہیں؟

ایک دستاویز کے مطابق مظاہرین نے 19 مطالبات پیش کیے ہیں جن میں سمندر کو (ٹرالر مافیا) سے نجات دلانے کے لیے اقدامات کرنا اور ماہی گیروں کو آزادانہ طور پر پانی میں شکار کے لئے جانے کی اجازت دینا شامل ہے۔

مظاہرین نے پاک ایران سرحد پر ٹوکن سسٹم کو ختم کرنے اور غیر ضروری سیکیورٹی چیک پوسٹوں کو ہٹانے کا بھی مطالبہ کیا ہے جو کہ علاقے میں لوگوں کی آمد و رفت میں رکاوٹ ہیں۔ انہوں نے گوادر میں شراب کی تمام دکانوں کو بند کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

مطالبات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی کے ملازمین کی اکثریت کا تعلق گوادر سے نہیں ہے، مقامی لوگوں کو ترجیح دینے پر زور دیا گیا ہے۔ مظاہرین بلوچستان کے تمام شہروں میں صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی کا بھی مطالبہ کر رہے تھے۔

ڈان اخبار ذرائع کے مطابق صوبائی حکومت نے مظاہرین کے چار مطالبات تسلیم کر لیے اور متعلقہ حکام نے اس حوالے سے باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔

صوبائی حکومت کی طرف سے منظور کیے گئے اہم مطالبات میں سے ایک یہ تھا کہ پاک ایران سرحدی امور کو فرنٹیئر کور حکام سے چلانے کے اختیارات لے کر اسے ضلعی انتظامیہ کے حوالے کیا جائے۔

کیا یہ چین مخالف احتجاج ہے؟

یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے تربت، زامران، اورماڑہ، پسنی، پسخان اور دیگر کئی علاقوں میں اس طرح کے احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔

دریں اثنا، بیجنگ نے میڈیا رپورٹس کی بھی تردید کی کہ گوادر میں ہونے والے مظاہرے چین مخالف تھے اور اسے ”جعلی خبریں ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد خطے میں جاری CPEC کے کام کو بدنام کرنا ہے۔

CGTN کی رپورٹ کے مطابق، چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے منگل کو ایک پریس کانفرنس میں یہ تبصرہ کیا۔

گوادر کے علاقے میں چین مخالف مظاہروں پر بعض میڈیا کی رپورٹس مکمل طور پر بے بنیاد ہیں۔ اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ گوادر پورٹ میں کوئی چینی ٹرالر موجود نہیں ہے۔

Related Posts