پی ڈی ایم کا مہنگائی مارچ

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے آئندہ سال مارچ میں مہنگائی مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے،پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ملک کے کونے کونے سے لوگ مہنگائی مارچ میں شرکت کیلئے اسلام آباد آئینگے، استعفوں کا کارڈ کب اورکس طرح کھیلنا ہے ، اس کا فیصلہ وقت آنے پراپنی مرضی سے کرینگے۔

مولانا فضل الرحمٰن کے مطابق مہنگائی مارچ کی تیاریوں کے سلسلے میں صوبائی سطح پر پی ڈی ایم کے اجلاس طلب کیے جائیں گے تاکہ متعلقہ حکمت ِ عملی تیار کی جاسکے، پنجاب میں ن لیگ کے صدر شہباز شریف، خیبرپختونخوا میں فضل الرحمن، بلوچستان میں محمود خان اچکزئی اور سندھ میں اویس نورانی اس سلسلے میں تیاریوں کیلئے اجلاس طلب کرینگے۔

اہم بات تو یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد نے حکومت کیخلاف لانگ مارچ کو مہنگائی مارچ کا نام دیدیا ہے جبکہ اپوزیشن قیادت کی اسٹیئرنگ کمیٹی کےاجلاس میں پیش کردہ سفارشات میں استعفے اور لانگ مارچ کا مطالبہ سرفہرست تھا۔

استعفوں کے بارے میں مولانا فضل الرحمان نے واضح کر دیا کہ اجلاس میں یہ موضوع زیربحث آیا تھا تاہم اس پر عملدرآمد کب اور کیسے کرنا ہے اس کا فیصلہ پی ڈی ایم نے اپنی مرضی سے کرنا ہے جبکہ لانگ مارچ اب تبدیل ہو کرمہنگائی مارچ ہو چکا ہے ۔

پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں اسمبلیوں سے استعفے دینے اور لانگ مارچ کیلئے حتمی تاریخ کے علاوہ بلدیاتی اور ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کا بھی اعلان متوقع تھاتاہم اپوزیشن کے درمیان اختلافات کی وجہ سے دھرنے کی اصطلاح استعمال کرنے سے بھی گریز کیا جارہا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ اپوزیشن اتحاد اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے لیکن مولانا فضل الرحمان کی کوشش رہی ہے کہ یہ سسٹم ختم ہو اورنواز شریف اور مریم نواز اس لئے مولانا فضل الرحمان کے ساتھ نظر آتے ہیں کیونکہ وہ سسٹم کا حصہ نہیں،جو لوگ سسٹم میں ہیں وہ ایسی حکمت عملی کو سپورٹ نہیں کرتے ۔

پی ڈی ایم کے حوالے سے حکومت کامؤقف بہت حد تک درست بھی ہے کیونکہ اپنے قیام سے لے کر اب تک پی ڈی ایم حکومت کیلئے کوئی خاص مسائل یا مشکلات پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے کیونکہ مختلف جماعتوں کے الگ الگ ایجنڈے اور نظریات کی وجہ سے اتحاد اپنے مقاصد کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت پیپلزپارٹی اتحاد کا حصہ نہیں  رہی اور اب بھی پیپلزپارٹی ایک طرف اور باقی اپوزیشن دوسری جانب نظر آتی ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کے آپس کے اختلافات کی وجہ سے دھرنا اور لانگ مارچ کے آپشنز ترک کرکے پی ڈی ایم خود کو عوام میں زندہ رکھنے کی تگ و دو کرنے میں مصروف ہے۔ پیپلزپارٹی استعفے دینے پر بضد ہے تو مسلم لیگ (ن) تحریک عدم اعتماد کیلئے اصرار کررہی ہے اور دونوں جماعتیں اپنے اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے یا اس میں مناسب ترامیم کیلئے تیار نہیں۔

پی ڈی ایم قیادت حکومت کیلئے مشکلات اسی صورت میں پیدا کرسکے گی ،جب وہ خود یکسو ہو تاہم اس وقت اپوزیشن قیادت خود بکھری ہوئی ہے جس کی وجہ سے دھرنا، مارچ یا کوئی بھی اقدام حکومت کیلئے چیلنج کی صورت اختیار نہیں کرسکتا۔

اس لئے اپوزیشن قیادت کو حکومت گرانے کے آپشنز پر غور کرنے سے پہلے آپس کے اختلافات دور کرکے اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہوگا۔

Related Posts