سانحہ سیالکوٹ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سیالکوٹ میں سری لنکا سے تعلق رکھنے والے ایک فیکٹری کے مینیجر کو جلا کر مارنے کے خوفناک واقعے کے بعد اہل وطن صدمے کی کیفیت سے دوچار ہیں، جمعہ کو پیش آنے والا واقعہ بھی پاکستان کی تاریخ میں پیش آنے والے سب سے ہولناک واقعات میں سے ایک کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

پریانتھا کمارا تقریباً ایک دہائی سے سیالکوٹ میں کام کررہا تھا، ابتدائی اطلاعات میں یہ معلوم ہوا ہے کہ ہجوم اس خبر کے پھیلنے کے بعد مشتعل ہو گیا کہ اس نے قرآنی آیات والا ایک مذہبی پوسٹر پھاڑ دیا ہے۔ اگرچہ اس حوالے سے تفصیلات بہت کم ہیں، تاہم شدت پسند مذہبی گروہوں کے ساتھ ہجوم کی ممکنہ سیاسی وابستگی یا حمایت کے حوالے سے کئی سوالات اُٹھ رہے ہیں۔

پاکستان میں اس قسم کے واقعات اب معمول بنتے جارہے ہیں، جس میں مشتعل ہجوم کی جانب سے لوگوں پر حملے شامل ہیں، جن پر اکثر جھوٹا، توہین مذہب کا الزام لگایا جاتا ہے۔ جمعہ کے واقعے نے ہمیں 2010 میں سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو ہجوم کے تشدد اور درد ناک واقعے کی یاد دلا دی،جس میں ہونے والے افسوسناک واقعے نے اہل وطن کے دل دہلا دیئے تھے، مشال خان کا افسردہ کردینے والا واقعہ کون بھول سکتا ہے۔

بے شک، حکومت اور سیاستدانوں کی طرف سے مذمتی بیانات جاری کئے جارہے ہیں، لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ملک میں انتہا پسند گروہوں کی کارروائیوں اور ریاست کی ملی بھگت کی وجہ سے آج ہم یہاں کھڑے ہیں۔

دریں اثناء وزیراعظم عمران خان نے سری لنکا کے صدر کو انصاف کی یقین دہانی کرائی ہے اور سری لنکا کے عوام کو قوم کے غصے اور شرمندگی سے آگاہ کیا ہے۔ پنجاب حکومت کے ترجمان حسن خاور نے انکشاف کیا کہ 200 چھاپوں کے دوران 118 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا اور حراست میں لیے گئے افراد میں 13 بنیادی مشتبہ افراد بھی شامل ہیں۔

تاہم، معاملات محض تفتیش اور یقین سے کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ یہ صرف ایک بار کی مجرمانہ کارروائی نہیں ہے، یہ دہشت گردی ہے، جو اب ہمارے معاشرے میں معمول بن چکی ہے، اب وقت آگیا ہے کہ ریاست اور حکومت شہریوں کے ساتھ برابری کی جائے۔ حکومت کو ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے ایک ٹھوس منصوبہ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

حکومت کو وہ غلطیاں نہیں دہرانی چاہئیں جو اس نے مشال خان کیس میں کیں، جہاں ہجوم میں ملوث افراد کو سزا سنانے میں کئی سال لگے اور بہت سے مجرموں کو رہا کر دیا گیا۔ یہ ایک مقامی مسئلہ ہے، بغیر ثبوت کے فیصلہ کرنا ہے۔ اس کے لیے جامع ریاستی سطح پر ردعمل کی ضرورت ہے۔

Related Posts