مسلمانوں کے قبلۂ اوّل مسجدِ اقصیٰ کے متعلق تاریخِ اسلام سے ثابت 7 اہم حقائق

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مسلمانوں کے قبلۂ اوّل مسجدِ اقصیٰ کے متعلق تاریخِ اسلام سے ثابت 10 اہم حقائق
مسلمانوں کے قبلۂ اوّل مسجدِ اقصیٰ کے متعلق تاریخِ اسلام سے ثابت 10 اہم حقائق

امتِ مسلمہ کے قبلۂ اوّل مسجدِ اقصیٰ کو حرمین شریفین یعنی مسجد الحرام (کعبۃ اللہ) اور مسجدِ نبوی (روضۂ رسول ﷺ) کے بعد اسلامی دنیا کا تیسرا مقدس ترین مقام سمجھا جاتا ہے جس کے متعلق 7 حقائق کا ہر مسلمان کو علم ہونا چاہئے۔

پہلی حقیقت یہ ہے کہ مسجدِ اقصیٰ کا قبلۂ اول ہونا تاریخِ اسلام سے ثابت ہے بھی اور نہیں بھی کیونکہ اسلام دینِ ابراہیمی کہلاتا ہے اور اللہ کے جلیل القدر پیغمبر ابراہیم علیہ السلام نے اپنے صاحبزادے اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر جو تاریخِ انسانی کی پہلی مسجد تعمیر کی وہ مسجد الحرام تھی۔

پھر بھی مسجدِ اقصیٰ مسلمانوں کیلئے قبلۂ اول اس لیے ہے کیونکہ نبئ آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے کم و بیش 16 یا 17 ماہ مسجدِ اقصیٰ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کی اور ایک نماز کے دوران وحئ الٰہی کے تحت رخ تبدیل کرکے کعبۃ اللہ کی طرف کر لیا۔ اس واقعے کی یادگار مسجدِ قبلتین آج بھی سعودی عرب میں موجود ہے۔

دوسری حقیقت یہ ہے کہ مسجدِ اقصیٰ 5 ایسی مساجد میں شامل ہے جن کا قرآنِ پاک نے نام لے کر ذکر فرمایا۔ پہلی مسجدحرام ہے، دوسری مسجدِ نبوی ﷺ، تیسری مسجدِ اقصیٰ، چوتھی مسجدِ قبا اور پانچویں منافقین کی مسجد جسے مسجدِ ضرار قرار دیا گیا۔

تیسری حقیقت یہ ہے کہ مسجدِ اقصیٰ یروشلم کے مقدس اور تاریخی شہر میں واقع ہے جس پر یہودی جمہوریہ اسرائیل نے غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔اس مقدس مسجد میں 5 ہزار نمازی ایک وقت میں نماز ادا کرسکتے ہیں۔

چوتھی حقیقت یہ ہے کہ پہلے غیر مسلم افراد مسجدِ اقصیٰ جیسے تاریخی مقام کا دورہ کرسکتے تھے لیکن سن 2000ء میں فلسطینی عوام کی طرف سے انتقاضہ الاقصیٰ نامی تحریک کے بعد سے غیر مسلموں کو داخلے کی اجازت نہیں۔

انتقاضہ الاقصیٰ کے نتیجے میں اسرائیل کو غزہ کی پٹی سے نکلنے پر مجبور ہونا پڑا۔ آج سے کم و بیش 21 برس قبل ارئیل شیرون اسرائیلی فوج اور پولیس کی مدد لے کر مسجدِ اقصیٰ کی مجرمانہ بے حرمتی کا مرتکب ہوا جس کے بعد تحریک کاآغاز ہوا۔

پانچویں حقیقت یہ ہے کہ جب جب ہم حضورِ اکرم ﷺ کے سفرِ معراج کا ذکر کریں گے، مسجدِ اقصیٰ کا ذکر اس میں لازمی ہوگا کیونکہ پہلے آنحضرت ﷺ کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ لے جایا گیا اور یہیں کم و بیش 1 لاکھ 24 ہزار انبیائے کرام نے آپ ﷺ کی امامت میں نماز ادا کی۔

یہی وہ مسجد ہے جہاں سے آپ ﷺ براق پر سوار ہو کر معراج کے سفر پر روانہ ہوئے جس کا ذکر قرآنِ پاک میں سورۃ الاسراء کی پہلی آیت میں کیا گیا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی۔

چھٹی حقیقت یہ ہے کہ مسجدِ اقصیٰ کی بنیاد مسجدِ حرام کے 40 برس بعد رکھی گئی۔ حضرت ابوذر غفاری فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر ہوئی؟ آپ نے فرمایا مسجدِ حرام، میں نے پوچھا پھر کون سی؟ فرمایا مسجدِ اقصیٰ۔ میں نے پھر سوال کیا کہ دونوں کی تعمیر کے درمیان وقفہ کتنا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ 40 سال۔ پھر پوری زمین تمہارے لیے مسجد ہے جہاں بھی نماز کا وقت آجائے، پڑھ لو۔ (صحیح مسلم: 520)

ساتویں حقیقت یہ ہے کہ محدثین کرام کے مطابق مسجدِ اقصیٰ کی تجدید جلیل القدر انبیاء حضرت یعقوب علیہ السلام یا داؤد علیہ السلام نے کی اور سلیمان علیہ السلام وہ برگزیدہ پیغمبر ہیں جن کے عہد میں مسجدِ اقصیٰ مکمل ہوئی۔ایک حدیث کے مطابق مسجدِ اقصیٰ میں نماز کی ادائیگی کا ثواب 50 ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ 

 

Related Posts