وزیرِ اعظم عمران خان کی 68ویں سالگرہ اور 2 سالہ دورِ اقتدار، کیا عوام مطمئن ہیں؟

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وزیرِ اعظم عمران خان کی 68ویں سالگرہ اور 2 سالہ دورِ اقتدار، کیا کھویا، کیا پایا؟
وزیرِ اعظم عمران خان کی 68ویں سالگرہ اور 2 سالہ دورِ اقتدار، کیا کھویا، کیا پایا؟

وزیرِ اعظم عمران خان آج 68 سال کے ہو گئے جبکہ تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت پہلے ہی 2 سالہ دورِ اقتدار مکمل کرچکی ہے۔اِس دوران بہت سے نشیب و فراز آئے جن میں کورونا وائرس کی عالمی وباء اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا امیج سب سے اہم ہے۔

کورونا وائرس نے گزشتہ برس ہی دُنیا بھر میں ہلچل مچائی جس سے کھربوں ڈالرز کا نقصان ہوا جو آج بھی جاری ہے۔ یہاں وزیرِ اعظم عمران خان نے اسمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی اپناتے ہوئے زبردست کامیابی حاصل کی اور محسوس ایسا ہوتا ہے جیسے کورونا وائرس پاکستان میں آہستہ آہستہ دم توڑ رہا ہے۔ 

دیگر کامیابیوں کی بات کی جائے تو 100 روز کا وعدہ، احساس پروگرام، سائنس و ٹیکنالوجی اور صحت و صفائی سمیت دیگر شعبوں میں خاطر خواہ اقدامات اٹھائے گئے۔ جو وزراء یا اعلیٰ حکام کام نہ کرسکے، ان کے قلمدان یا تو تبدیل کردئیے گئے یا پھر انہیں عہدوں سے فارغ کردیا گیا۔ آئیے دیکھتے ہیں وزیرِ اعظم عمران خان نے 2 سالہ دورِ اقتدار میں کیا اقدامات اٹھائے اور عوام نے کیا کھویا اور کیا پایا؟

تحریکِ انصاف کی جدوجہد  اور عمران خان

پاکستان تحریکِ انصاف نامی سیاسی جماعت وزیرِ اعظم عمران خان نے 25 اپریل 1996ء کو شروع کی۔ عمران خان وزیرِ اعظم بننے سے قبل تحریکِ انصاف کے چیئرمین ہی نہیں بلکہ براڈ فورڈ یونیورسٹی کے چانسلر اور شوکت خانم کینسر ہسپتال کے بانی بھی تھے۔

یہی نہیں، بلکہ وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک کرکٹر کے طور پر شاندار زندگی گزاری ہے اور سن 1992ء میں پاکستان کو ورلڈ کپ بھی جتوایا ہے۔ تعلیم کے میدان میں وزیرِ اعظم عمران خان نے جو جھنڈے گاڑے ہیں، وہ ایک منفرد حیثیت کے حامل ہیں۔

انہوں نے معاشیات، فلسفہ اور پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ عمران خان کے نزدیک آزاد احتساب بیورو، آزاد عدلیہ اور آزاد الیکشن کمیشن پاکستان کے مسائل کا واحد حل ہے۔

سن 2013ء میں تحریکِ انصاف 17 سالہ جدوجہد کے بعد ایک مضبوط سیاسی پارٹی بنی جس نے خیبر پختونخوا میں اپنی صوبائی حکومت بنا لی۔ ووٹوں کے لحاظ سے پی ٹی آئی لمک کی دوسری اور سیٹوں کے لحاظ سے تیسری بڑی سیاسی پارٹی کہلائی۔

بعد ازاں 2018ء کے انتخابات میں تحریکِ انصاف نے ملک بھر سے شاندار کامیابی حاصل کی اور خیبر پختونخوا کے ساتھ ساتھ دیگر صوبوں اور وفاق میں اہم نشستیں حاصل کیں۔ آج وفاقی کابینہ کے وزراء اور وزیرِ اعظم عمران خان کے ساتھ ساتھ صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اور گورنر سندھ عمران اسماعیل بھی پی ٹی آئی سے تعلق رکھتے ہیں۔

غریبوں کی مدد کیلئے احساس پروگرام

پاکستان بھر میں غریب عوام کی فلاح و بہبود کیلئے وزیرِ اعظم عمران خان کا سب سے بڑا اقدام احساس پروگرام کا آغاز ہے۔ یہ صرف ایک پروگرام نہیں بلکہ مستحق افراد کی امداد اور بے سہارا لوگوں کی خدمت کے متعدد پروگرامز کا ایک مجموعہ کہا جاسکتا ہے۔

جولائی کے اعدادوشمار کے مطابق احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے تحت ملک بھر میں 153 ارب 55 کروڑ روپے سے زائد امدادی رقم تقسیم کی گئی جس کا مقصد کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن سے متاثرہ افراد کی مدد کرنا ہے۔ 

عمران خان کے احساس پروگرام کے تحت ملک بھر کے مستحقین میں مالی امداد تقسیم کی جاتی رہی ہے۔ بلوچستان میں 12 اگست کو احساس پروگرام اور ریلیف فنڈ عطیات کو سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ کیا گیا۔ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق احساس پروگرام کے تحت 8 ارب ڈالر کے ریلیف پیکیج کا آغاز ہوا۔ 

ابھی گزشتہ ماہ 8 ستمبر کو ہی حکومت نے احساس سائبر ونگ قائم کیا ہے جس کی منظوری ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے دی جو احساس پروگرام کے صارفین کیلئے قائم کیا گیا جن کے مفادات کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح قرار پائی تاکہ احساس امداد کے نام پر کوئی غریب افراد سے دھوکہ اور جعلسازی کا مرتکب نہ ہوسکے۔ 

پناہ گاہ پروگرام 

موجودہ حکومت کا سب سے بڑا پروگرام احساس ہے جس کے تحت پناہ گاہیں ایک اہم اقدام ہے۔ 2 ماہ قبل کے اعدادوشمار کے مطابق اسلام آباد میں 11 لاکھ 72 ہزار 654، کے پی کے میں 3 لاکھ 51 ہزار 518 جبکہ پنجاب میں 12 لاکھ 10 ہزار 734 افراد نے پناہ گاہوں سے عارضی چھت حاصل کی۔

محنت کش اور مڈل کلاس افراد پناہ گاہ پروگرام سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں جہاں انہیں دو وقت کا کھانا اور محدود طبی سہولت بھی  میسر آتی ہے۔ 

سفارتی کامیابیاں اور ناکامیاں

غور کیا جائے تو سفارتی محاذ پر پاکستان کا آج جو تصور وزیرِ اعظم عمران خان کی موجودگی میں اُبھرا ہے، ایسا تصور پہلے کبھی نہیں تھا۔ مجموعی طور پر سفارتی محاذ پر حکومتی کارکردگی کامیاب قرار دی جاسکتی ہے۔

مثال کے طور پر ابھی نندن کو بھارت کو واپس کردینا، مقبوضہ کشمیر کے کیس کو اقوامِ متحدہ میں زبردست انداز میں اٹھانا، چین، عرب ممالک اور امریکا سے سفارتی تعلقات کو نئی سطح پر لانا تحریکِ انصاف کی اہم کامیابیاں ہیں۔

ہاتھ پھیلانے کی بجائے کاروبار کیلئے دعوت یعنی حکومت کا قرض مانگنے کی بجائے دیگر ممالک کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دینا ایک زبردست اقدام قرار دیا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب لائن آف کنٹرول پر تناؤ اور بھارت کی ہٹ دھرمی برقرار رہی۔ حکومت نے جب کرتار پور راہداری کھول کر دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو اسے بھی بھارت نے سکھوں کو ہندوستان سے الگ کرنے کی سازش قرار دیا۔

بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت بدل کر ایک نیا محاذ کھول دیا۔ او آئی سی نے کشمیر کے معاملے پر اجلاس ابھی تک طلب نہیں کیا اور بیشتر ممالک نے کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کا ساتھ نہیں دیا۔ یہ وہ سفارتی چیلنجز ہیں جن کے حل کیلئے پاکستان ابھی تک کوشش کر رہا ہے۔ 

ناکامیاں، مہنگائی اور بے روزگاری 

مہنگائی تحریکِ انصاف دور کی وہ اہم ناکامی ہے جسے سب سے بڑی ناکامی قرار دیتے ہوئے کسی بھی عام انسان کو کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی کیونکہ عوام کو ملکی قرضوں یا خسارے کی بجائے صرف آٹے دال کے بھاؤ سے غرض ہوتی ہے۔

گزشتہ دورِحکومت میں آٹا 32 روپے فی کلو ملتا تھا جو اب 50 روپے سے تجاوز کرچکا ہے، چینی 50 روپے فی کلو سے تجاوز کرکے 100 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے۔ سرکاری سالانہ پلان رپورٹ کے مطابق بے روزگار افراد جو پہلے 40 لاکھ تھے آگے جا کر 60 لاکھ ہوجائیں گے۔

بعض ماہرینِ معیشت کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی پیداوار نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ پاکستان میں آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور جی ڈی پی میں اس اعتبار سے اضافہ نہ ہونا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

بے فائدہ احتساب اور سیاسی خلفشار 

بلاشبہ وزیرِ اعظم عمران خان کا یہ خواب تھا کہ وہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف، سابق صدر آصف زرداری اور اپوزیشن جماعتوں کے بدعنوان سیاستدانوں کو کیفرِ کردار تک پہنچائیں گے، لیکن احتساب کا یہ نعرہ بے فائدہ ثابت ہوا۔

آج عدلیہ کے فیصلوں، نیب کی ناکامیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی ہمارے سامنے ہے۔ سیاسی خلفشار ایک الگ مسئلہ ہے۔ وزرائے مملکت سمیت اہم سیاسی رہنما اپوزیشن اور خود پی ٹی آئی میں بھی جوڑ توڑ کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔

مالی بے ضابطگی کے الزام کے تحت کتنے ہی سیاسی رہنما آج مقدمات بھگتتے نظر آتے ہیں لیکن کیا عوام کی لوٹی ہوئی دولت وطن واپس آئی؟ حکومت کا ہدف شاید مخالفین تھے لیکن  جہانگیر ترین سمیت پی ٹی آئی رہنماؤں پر بھی انگلیاں اٹھائی گئیں اور آج وہ بھی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ عمران خان نے ہمیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا۔ الزامات بے بنیاد ہیں اور ہم پر بقول شہباز شریف ایک دھیلے کی بھی کرپشن ثابت نہیں کی جاسکتی۔ نواز شریف تو بیرونِ ملک سدھار گئے لیکن آصف علی زرداری مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے آج بھی حکومتِ وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سیاسی بیانات داغتے نظر آتے ہیں۔ یہ احتساب کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے؟

مجموعی تاثر کیا ہے؟

عوام کی مجموعی رائے آج بھی وزیرِ اعظم کے حق میں نظر آتی ہے۔ لوگ بد ترین مہنگائی، ناقابلِ برداشت بے روزگاری اور سیاسی خلفشار کے باوجود ذخیرہ اندوزوں، جرائم پیشہ افراد اور بدعنوان سیاستدانوں کے خلاف عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

آج بھی بے شمار عوام کی امیدیں وزیرِ اعظم عمران خان کے ساتھ وابستہ ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کے 68ویں یومِ پیدائش کے موقعے پر پی ٹی آئی رہنماؤں، وفاقی و صوبائی وزراء اور سیاسی کارکنان کے ساتھ ساتھ عوام کی بڑی تعداد نے بھی وزیرِ اعظم عمران خان کو مبارکباد دی۔

امید ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان آج اپنی سالگرہ کے موقعے پر غریب عوام کو بھی یاد رکھیں گے اور مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے کیلئے اقدامات پر پہلے سے زیادہ توجہ دیں گے۔

Related Posts