والدین سے محروم 6 معصوم بچے، اک درد بھری داستان

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

باپ کی انگلی، ماں کی بانہوں سے چھوٹا جو

وہ بچپن بھٹک رہا ہے، راہ میں صبا نہیں

خاموش ہو گیا ہے وہ آنگن، ہنسی کی صدا نہیں

ماں کی گود نہیں اب باقی، باپ کی دعا نہیں

شمالی غزہ کے علاقے بیت حانون کے “مدرسہ حلب” میں قائم ایک خیمے میں 6 فلسطینی بچے اپنی دادی کے ساتھ بے کیف سانسیں لے رہے ہیں۔ یہی دادی ان کی ماں بھی اور وہی باپ بھی۔ وہ خود بھی سرطان جیسے مہلک مرض میں مبتلا۔ ان بچوں کی ماں دجالی بمباری میں شہید اور باپ کو اسی خیمے سے گرفتار کر لیا گیا۔ اب یہ معصوم پھول موبائل میں والدین کی تصاویر دیکھ کر آہیں بھرتے ہیں۔ ان میں دو نومولود جڑواں بھی شامل ہیں، جنہیں اب نہ ماں کی آغوش میسر ہے، نہ باپ کا سایہ۔ یہ المناک واقعہ غزہ میں جاری نسل کشی اور انسانی بحران کا ایک دل دہلا دینے والا منظر پیش کرتا ہے۔

“الرمال” میں قائم ایک خیمے سے 14 سالہ محمد الزعانین جو 6 بچوں میں سب سے بڑا ہے، والدین کی غیر موجودگی میں اپنی عمر سے کہیں بڑی ذمہ داریاں سنبھالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ محمد ان تمام بچوں کی کفالت کر رہا ہے جو نہ صرف یتیم ہو چکے ہیں، بلکہ نازک ترین حالات میں خیمے کے اندر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ والدہ کو شہید کر دیا گیا، والد کو قابض فوج نے گرفتار کر لیا اور اب یہ معصوم بچے اپنے کم عمر بڑے بھائی کی شفقت پر زندہ ہیں۔

“ہم اس خیمے میں بہت مشکل حالات سے دوچار ہیں، میرے بہن بھائیوں کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں، صرف میری دادی ہیں اور وہ بھی کینسر کی مریضہ ہیں۔”

یہ کہنا ہے 14 سالہ محمد الزعانین کا، جو والدین کی غیر موجودگی میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا واحد سہارا بن چکا ہے۔ الجزیرہ مباشر سے بات کرتے ہوئے محمد نے کہا: “میں اپنے بہن بھائیوں کے لیے کھانا بناتا ہوں، ان کی مدد کرتا ہوں، جیسے میری ماں نے مجھے سکھایا تھا… لیکن ماں باپ کے بغیر زندگی بہت مشکل ہے۔ دونوں چھوٹے بھائیوں کا دودھ نہیں چھوٹا تھا کہ امی شہید ہوگئیں۔ اب ساری رات امی کو بلاتے رہتے ہیں۔ جب بھی آنکھ کھلتی ہے تو امی کو پکارتے ہیں۔ ان کا سنبھالنا میرے لیے سب سے مشکل مرحلہ ہے۔”

محمد نے جنگ کے خاتمے اور اپنے والد کی رہائی کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا: “ہم اُس کے بغیر نہیں جی سکتے… ہم بس محفوظ زندگی چاہتے ہیں۔”

یہ بیان صرف ایک بچے کا نہیں، بلکہ پوری مظلوم قوم کے احساسات کا ترجمان ہے۔

بچوں کیلئے تڑپتا باپ:

ایسے کٹھن حالات میں 65 سالہ دادی منى الزعانین اپنے چھ یتیم پوتے پوتیوں کی پرورش کی کوشش کر رہی ہیں، انہوں نے بتایا: “یہ چھ بچے اپنی ماں کو کھو چکے ہیں اور ہم صرف اس امید پر جی رہے ہیں کہ ان کا باپ جلد جیل سے رہا ہو کر واپس آ جائے اور انہیں پھر سے اپنی آغوش میں لے سکے۔” دادی کے مطابق، ان کے بیٹے کے کیس کی پیروی کرنے والی وکیل نے بتایا کہ وہ (قیدی والد) ہمیشہ اپنے بچوں کو یاد کر کے روتا ہے، خاص طور پر جڑواں بچوں کو اور وہ اپنی ماں کو ان کی دیکھ بھال کی تاکید کرتا رہتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خیمے میں زندگی انتہائی کٹھن اور بے رحم ہے، نہ کھانے کو کچھ ہے، نہ دوا دارو دستیاب، بچے بار بار بیمار پڑتے ہیں، مگر زندگی کی بنیادی ضروریات تک مفقود ہیں۔

یہ المناک صورتحال صرف ایک خاندان کی نہیں، بلکہ غزہ کے ہزاروں خاندانوں کا حال ہے، جو روزانہ ایک نئی قیامت سے گزر رہے ہیں۔

Related Posts