معروف مبلغِ اسلام جنید جمشید کی 56ویں سالگرہ اور زندگی کا مختصر جائزہ

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

معروف مبلغِ اسلام جنید جمشید کی 56ویں سالگرہ اور زندگی کا مختصر جائزہ
معروف مبلغِ اسلام جنید جمشید کی 56ویں سالگرہ اور زندگی کا مختصر جائزہ

دل دل پاکستان کے قومی ترانے سے شہرت حاصل کرنے والے معروف گلوکار جنید جمشید نے میرا دل بدل دے تک کا سفر طے کرکے ثابت کیا کہ وہ اسلام کے مبلغ بن گئے ہیں جبکہ آج 3 ستمبر کے روز ان کی 56 ویں سالگرہ کے موقعے پر ہم ان کی زندگی کا ایک مختصر جائزہ لیں گے۔

ایک گلوکار سے ایک مبلغ تک کا سفر طے کرنے والے جنید جمشید کو پاکستان میں وہ شہرت نصیب ہوئی جو دنیا میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جس کی وجہ ان کی ذاتی محنت و صلاحیت کے ساتھ ساتھ اسلام کیلئے محبت بھی تھی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان پر غالب آ کر رہی۔

جنید جمشید کی زندگی

پاکستان کے نامور گلوکار اور نعت خواں جنید جمشید 3 ستمبر 1964ء کو کراچی میں پیدا ہوئے جہاں ان کا نام جنید جمشید خان رکھا گیا۔ آپ کے خاندان کا تعلق پاکستان ائیر فورس سے رہا ہے جس کی بناء پر اہلِ خانہ کی کوشش تھی کہ جنید جمشید بھی فوجی بنیں تاہم انہوں نے موسیقی کو ترجیح دی۔

دوسری جانب جنید جمشید کے ماموں  صاحبزادہ جہانگیر جنہیں چیکو بھی کہا جاتا ہے، لندن کے بزنس مین اور تحریکِ انصاف کے بانی رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ ان کے بیٹے شیری جہانگیر نے پی ٹی وی کے ڈرامے جناح سے قائد میں محمد علی جناح کا رول بھی ادا کیا۔

فوزیہ قصوری نامی پاکستانی سیاستدان اور علی خان نامی اداکار بھی جنید جمشید کے اہم رشتہ داروں میں سے ہیں۔ سعودی عرب میں عالمی بورڈنگ ہائی اسکول سے گریجویشن کرنے کے بعد جنید جمشید بھی پاک فوج میں شامل ہونا چاہتے تھے۔

آنجہانی جنید جمشید کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان ائیر فورس میں فائٹر پائلٹ بنیں تاہم ان کی کمزور بصارت کے باعث ایسا نہ ہوسکا جس کے بعد انہوں نے لاہور کی مشہور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں داخلہ لے لیا۔

یونیورسٹی میں جنید جمشید نے ریاضی اور طبیعیات کے مضامین کا انتخاب کیا اور مکینیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ سن 1990ء میں انہیں بی ایس سی کی ڈگری مل گئی جس کے بعد انہوں نے گلوکاری کا انتخاب کیا۔

گلوکاری میں کیرئیر

وائٹل سائنز نامی بینڈ سن 1986ء میں روحیل حیات اور شہزاد حسن نے قائم کیا تھا جس میں جنید جمشید نے ایک گلوکار کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی۔ 

بینڈ نے ملک بھر کے مختلف شہروں میں گانے پیش کرکے شائقینِ موسیقی سے داد حاصل کی۔ بعد ازاں پی ٹی وی نے وائٹل سائنز سے رابطہ کر لیا جس کے بعد موسیقی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔

بعد ازاں شعیب منصور نامی پروڈیوسر اور براڈ کاسٹر نے وائٹل سائنز میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے بینڈ کیلئے دل دل پاکستان نامی مشہور گانا تحریر کیا۔ وائٹل سائنز کے گانے سرکاری ٹی وی پر چلائے گئے جس سے جنید جمشید کی شہرت ساتویں آسمان پر پہنچ گئی۔

دل دل پاکستان کے بعد تم مل گئے نامی گانے کو بھی بے حد شہرت ملی۔ جنید جمشید نے ایک پاپ سنگر کے طور پر نمایاں مقام حاصل کیا اور شہرت کا یہ سفر آنے والے کئی برسوں تک جاری و ساری رہا۔

سن 1990ء میں جنید جمشید نے انجینئرنگ کی ڈگری لینے کے بعد پاک فضائیہ میں سول کنٹریکٹر کی  حیثیت سے مختصر مدت کیلئے کام کیا تھا جس کے بعد موسیقی کا کیرئیر انہیں بلانے لگا اور انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔

وائٹل سائنز کے بعد

وائٹل سائنز سے 1998ء میں جدا ہونے کے بعد جنید جمشید نے اس راہ پر نامی البم ریلیز کیا جو 1999ء میں بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔ نہ تو آئے گی، آنکھوں کو آنکھوں نے اور او صنما نامی گانے بے حد مقبول ہوئے۔

دل کی بات نامی البم سن 2001ء میں سامنے آیا جس نے میڈیا کی توجہ ایک بار پھر جنید جمشید کی طرف دلائی۔ عوام الناس میں جنید جمشید کے گانوں کو بے حد سراہا گیا۔

عالمی شہرت 

گلوکار کی حیثیت سے جنید جمشید کی شہرت پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں بڑھتی چلی گئی۔ جنید جمشید نے پاکستان کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک بھی شوز کیے اور خوب شہرت سمیٹی۔ 

بعد ازاں  2003ء میں بی بی سی ورلڈ سروس نے عوام سے رائے طلب کی جس میں 7000 گانے رکھے گئے اور لوگوں سے پوچھا گیا کہ اپنے پسندیدہ گانوں سے آگاہ کریں۔

دنیا کے 155 ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد نے اِس سوال و جواب میں شرکت کی جس کے بعد دنیا کے 10 بہترین گانے عوام کے سامنے لائے گئے۔ دل دل پاکستان ان گانوں میں تیسرے نمبر پر تھا۔

موسیقی سے کنارہ کشی

سن 1999ء میں ہی میڈیا میں جنید جمشید کی موسیقی سے کنارہ کشی پر چہ مگوئیاں شروع ہوچکی تھیں تاہم جنید جمشید موسیقی میں مصروف رہے جس سے ایسی تمام تر افواہیں دم توڑتی گئیں لیکن پھر خود جنید جمشید نے عوام کو حیران کردیا جب انہوں نے خود اعلان کیا کہ میں موسیقی سے توبہ کرچکا ہوں۔

میڈیا سے کتراتے ہوئے جنید جمشید 2001ء کے بعد عوام کی نظروں سے اوجھل ہو گئے  جبکہ اس دوران ریلیز کیے گئے ان کے آخری دو البم بھی عوام میں زیادہ توجہ حاصل نہ کرسکے۔ وائٹل سائنز کا اہم حصہ سمجھے جانے والے حیات نے موسیقی پر کام جاری رکھا جس سے جنید جمشید نے آہستہ آہستہ فاصلہ اختیار کر لیا۔

مالی طور پر بھی جنید جمشید کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ انہوں نے موسیقی چھوڑ دی تھی اور موسیقی ہی ان کیلئے کمائی کا ذریعہ تھا جو ختم ہوگیا لیکن جنید جمشید نے ہمت نہیں ہاری۔ اس دوران شعیب منصور بھی ان کی مدد کرتے رہے۔

نائن الیون کا واقعہ اور جنید جمشید

امریکا میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد دنیا کی فضاء یکسر تبدیل ہو گئی۔ جنید جمشید مغربی ممالک میں جاتے تھے۔ان سے پاکستان کی ثقافت اور موسیقی کے ساتھ ساتھ دہشت گردی پر بھی سوالات کیے گئے۔

پاکستانی میڈیا نے ایک بار پھر خبریں چلانا شروع کردیں کہ جنید جمشید نے موسیقی سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے اور اب وہ 5 وقت کی نماز بھی پڑھتے ہیں۔ 20 سال تک انجینئرنگ سے دور رہنے والے جنید جمشید نے اچانک اعلان کیا کہ میں اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ مل کر ایک فیشن ڈیزائننگ کمپنی بنا رہا ہوں۔

کچھ ہی وقت کے بعد 2004ء میں جنید جمشید نے واضح طور پر اعلان کیا کہ میں نے موسیقی سے توبہ کر لی ہے اور میں نے اپنی زندگی اسلام کیلئے وقف کردی ہے۔ انہوں نے جے ڈاٹ کے نام سے گارمنٹس کا بزنس بھی شروع کیا۔

افسوسناک طیارہ حادثہ اور وفات 

جے ڈاٹ بوتیک کے مالک جنید جمشید اب ایک مبلغِ اسلام بن چکے تھے کیونکہ انہوں نے نہ صرف موسیقی کو خیر باد کہا اور خود کو اسلام کیلئے وقف کرنے کا اعلان کیا بلکہ اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا۔

داڑھی رکھ کر اسلام کی تبلیغ شروع کرنے کے باعث عوام نے انہیں مبلغِ اسلام کہنا اور سمجھنا بھی شروع کردیا تھا۔ مبلغِ اسلام جنید جمشید 7 دسمبر 2016ء کو پی آئی اے کی فلائٹ نمبر 661 کے ایک حادثے میں وفات پا گئے۔

یہ حادثہ اتنا افسوسناک تھا کہ اِس پر پورا پاکستان خون کے آنسو رویا کیونکہ حادثے میں جنید جمشید کے ساتھ ساتھ ان کی اہلیہ، پی آئی اے عملے کے 5 اراکین اور مسافروں سمیت 48 افراد جاں بحق ہوئے۔

چترال سے اسلام آباد جانے والی پی آئی اے کی یہ فلائٹ وفاقی دارالحکومت جاتے ہوئے حویلیاں کے قریب گر کر بد ترین حادثے کا شکار ہوئی جس میں کوئی بھی شخص زندہ نہیں بچ سکا۔ 

افسوسناک حادثے پر کی گئی تحقیقات سے پتہ چلا کہ فلائٹ نمبر 661 میں استعمال ہونے والا طیارہ سن 2007ء میں پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز (پی آئی اے) کے حوالے کیا گیا جسے اسی سال پہلی بار استعمال کیا گیا۔

قبل ازیں 2009ء میں بھی اِس طیارے کو حادثہ پیش آچکا تھا جس سے طیارے کو نقصان بھی پہنچا لیکن خدا معلوم کن مفاد پرست عناصر نے اسے مرمت کرکے دوبارہ استعمال کرنا شروع کردیا۔آج معروف گلوکار اور مبلغِ اسلام کی سالگرہ پر لوگ جنید جمشید کے ساتھ ساتھ اس افسوسناک حادثے کو بھی ضرور یاد کریں گے۔ 

Related Posts