سینیٹ کے بعد 26ویں آئینی ترمیم کا بل قومی اسمبلی سے بھی منظور

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسلام آباد: قومی اسمبلی نے اتوار کی رات 26 ویں آئینی ترمیم کا بل منظور کر لیا جس کے حق میں 225 ووٹ ڈالے گئے جبکہ پی ٹی آئی کے اراکین پارلیمنٹ نے بل کے خلاف احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی اجازت سے بل قومی اسمبلی میں پیش کیا۔

مخلوط حکومت کو اسمبلی میں بل کی منظوری کے لیے 224 ووٹ درکار تھے۔ اس نے ترمیمی بل کی منظوری کے لیے 225 ووٹ حاصل کیے۔

قبل ازیں سینیٹ نے ترمیم کے حق میں 65 ارکان نے ووٹ ڈال کر بل منظور کیا جب کہ 4 ارکان نے مخالفت کی۔

قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کے 215 ارکان میں سے 213 نے بل کے حق میں ووٹ دیا جب کہ اتحادی حکومت کے عادل بازئی نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بھی اپنا ووٹ استعمال نہیں کیا۔

حکومت کو بل کی منظوری کے لیے 224 ووٹ درکار تھے۔ جے یو آئی ف کے تمام آٹھ ارکان نے مسودے کے حق میں ووٹ دیا۔ پی ٹی آئی کے چار ارکان نے بھی اسمبلی میں بل کے حق میں ووٹ دیا۔صدر آصف علی زرداری ایوان صدر میں بل پر دستخط کریں گے۔

قومی اسمبلی کا اجلاس طویل انتظار کے بعد 26ویں آئینی ترمیمی بل کی منظوری کے لیے شروع ہو گیا جسے سینیٹ نے دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26ویں آئینی ترمیم ایوان بالا میں پیش کی اور بعد ازاں اس کی منظوری کے لیے تحریک پیش کی جسے ایوان میں دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا گیا، ترمیم کے حق میں 65 ارکان نے ووٹ دیا جب کہ 4۔ ارکان نے اس کی مخالفت کی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور مجلس وحدت مسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کے ارکان نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا اور ہال سے باہر چلے گئے۔

اس بل میں کئی آئینی ترامیم کی تجویز دی گئی ہے، جس میں چیف جسٹس کے لیے تین سال کی مقررہ مدت مقرر کرنا، آئینی بنچوں کا قیام، سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل نو اور ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل شامل ہے جو کہ تین سینئر ترین ججوں میں سے نام تجویز کرے۔

ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ آئینی ترمیمی بل پر اپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی گئی۔

اپنی تقریر میں وزیر قانون نے کہا کہ آئینی ترمیمی بل کا جائزہ لینے کے لیے اسپیکر کی ہدایت پر کمیٹی بنائی گئی تھی اور اس کا مکمل جائزہ لیا گیا تھا۔ بل کو ضمنی ایجنڈے میں شامل کیا گیا ہے اس لیے اسے اٹھایا جائے۔

اس کے بعد انہوں نے وضاحت کی کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے 18ویں آئینی ترمیم میں ججوں کی تقرری کا طریقہ کار متعارف کرایا گیا تھا اور اس مقصد کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کو کسی بھی نامزدگی کو روکنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی اور 19ویں ترمیم عجلت میں لائی گئی، کمیشن کی ساخت میں تبدیلی کی گئی، جس کے نتیجے میں اراکین کا جھکاؤ ایک خاص ادارے کی طرف ہوا۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ جوڈیشل کمیشن کی سربراہی سپریم کورٹ کے ججز کریں اور اس میں پارلیمنٹ کے چار ارکان شامل ہوں۔ چیف جسٹس کے ساتھ آئینی عدالت کے ججز کو کمیشن کا حصہ بنانے کی تجویز دی گئی۔

وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ آئینی بنچوں کی تشکیل کا اختیار جوڈیشل کمیشن کے پاس ہوگا جس میں چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے چار سینئر ججز کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کے ارکان بھی شامل ہوں گے۔

Related Posts