سانحہ کارساز کیا ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

شہرِ قائد میں قیامتِ صغریٰ کی طرح بپا ہونے والے سانحہ کارساز کو آج 15سال مکمل ہوچکے ہیں، جو 2007ء میں ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت سے 2 ماہ قبل 18 اکتوبر کے روز رونما ہوا۔ یہ کسی بھی سیاسی جماعت پر کیا گیا ملکی تاریخ کا سب سے بڑا دہشت گردانہ حملہ تھا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو جب وطن واپس آئیں تو پیپلز پارٹی کارکنان نے ریلی نکالی۔ دہشت گردی کی اس خوفناک واردات میں 130 سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے۔ بے نظیر بھٹو کے استقبال کیلئے عوام کا جمِ غفیر موجود تھا۔

پلان یہ تھا کہ بے نظیر بھٹو کراچی ائیرپورٹ سے بلاول ہاؤس پہنچتیں تاہم جیالوں کے رش کے باعث مختصر فاصلہ بھی طویل ہوتا چلا گیا۔ ملک بھر سے جیالوں نے کراچی کا رخ کر لیا تھا۔ آدھی رات کے قریب یہ قافلہ شاہراہِ فیصل کے مقام کارساز پر پہنچ گیا۔

کارساز پر پہنچنے کے بعد زوردار دھماکوں نے جشنِ استقبال کو مرگ کے ماتم میں بدل دیا۔ دو بم دھماکوں کے باعث جیالوں کی ریلی خون میں نہا گئی۔ خوش قسمتی سے بے نظیر بھٹو کی جان بچ گئی تاہم ان کے درجنوں کارکنان بم دھماکوں میں جان کی بازی ہار گئے تھے۔

کم و بیش 450 افراد دھماکوں کے نتیجے میں زخمی بھی ہوئے۔ دہشت گردی کا نشانہ غالباً محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں جنہیں فوری طورپر بلاول ہاؤس پہنچایا گیا، تاہم بے نظیر بھٹو کی جان بچنے کی خوشی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔ اسی سال 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو بھی ایک قاتلانہ حملے میں شہید ہوگئیں۔

ہر سال 18 اکتوبر کے روز پیپلز پارٹی شہدائے کارساز کی یاد مناتی ہے اور ہزاروں پی پی پی کارکنان اور رہنما یادگارِ شہداء پہنچتے ہیں اور کارساز پر جا کر تمام شہداء کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں تاہم سانحہ کارساز کا غم پوری قوم محسوس کرتی ہے۔

ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو شہید کرنے والے بلاشبہ پاکستانی قوم کے دشمن ہیں جنہوں نے پاکستان سے اس کی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور متعدد اعزازات کی حامل بیٹی چھین لی۔ سانحہ کارساز بھی اسی خاتون وزیر اعظم کے استقبال کے دوران برپا ہوا جسے کھلی دہشت گردی کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔

دہشت گرد آج بھی پاکستان کے خلاف مختلف علاقوں میں سرگرم ہیں اور مسلح افواج، سیاسی شخصیات اور عدلیہ کے سرکردہ افراد سمیت دیگر اہم شخصیات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستانی قوم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرتے ہوئے مختلف دھڑوں میں بٹنے کی بجائے یک رنگی کا مظاہرہ کرے تاکہ دہشت گردی کے خلاف برسرِ پیکار مسلح افواج کی بھی حوصلہ افزائی ہو کہ ان کی قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں وہ اکیلے نہیں۔

Related Posts