آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں کورونا وائرس وبا بن کر انسانی جانوں کے لیے عذاب بنا ہوا ہے ، بحیثیت مسلمان ہم کورونا سے بچنے کے اسلامی اصولوں کو بھی نظر انداز کر رہے ہیں، کوئی کہتا ہے کہ اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے اور لاک ڈاون نہیں کرنا چاہیے ، بعض لوگ کہتے بعض لوگ کہتے ہیں کہ مصافحہ ہاتھ ملانا لازمی کرناچاہیے ، لوگ اپنے آپ کو مسلمان تو کہتے ہیں مگر اسلامی تعلیمات سے روشناس نہیں ہیں، اسلام کو مذہب نہیں دین کہاگیا ہے یعنی زندگی گزارنے کے تمام رہنما اصولوں کا احاطہ اسلام کرتا ہے ۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ یا تو آپ اپنے دین کی تاریخ پڑھیں یا جید عالم دین سے معلومات حاصل کریں ، کسی بھی ملک شہر یا دنیا بھر میں پھیلنے والے وبائی امراض یا مہلک بیماریوں سے متعلق احتیاطیں دین اسلام میں موجود ہیں، آج جو قرنطینہ یا آئیسولیشن کی ہدایت مختلف ممالک کی حکومتیں دے رہی ہیں ان کو اگر ہم اپنے دین کی روشنی میں دیکھیں تو اس کی عمدہ مثالیں موجود ہیں، صحابہ ؓ اور نبی آخر الزماں کی احدیث مبارکہ کی مثالیں بھی ہیں۔
امیر المومنین عمر فاروقؓ کے عہد میں طاعون پھیلا تو موجودہ الفاظ میں قرنطینہ کے اصول پر عمل کیا گیا اور اتنی سختی سے عمل کیا گیا کہ وبا شام اور عراق سے باہر نہ نکل سکی۔ اس اثنا میں حضرت عمرؓ شام کی طرف روانہ ہو چکے تھے کہ مفتوحہ ممالک کا نظم و نسق اپنے ہاتھوں سے درست فرمائیں۔ تبوک کے قریب پہنچے تو وبا کی اطلاع ملی۔ اسی اصول کے تحت آگے جانے کے بجائے ‘ واپس ہو گئے ۔ اور وہاں نہیں گئے تاہم جن علاقوں میں طاعون پھیلا تھا وہاں پچیس ہزار مسلمان طاعون کی نذر ہوئے جن میں حضرت ابو عبیدہؓ جیسے جلیل القدر صحابہ بھی شامل تھے ۔
کیا ان حضرات سے زیادہ بھی کوئی سچّا اور ایمان والا تھا؟ اور کیا ان کی ایمانی طاقت کم تھی کہ طاعون نے انہیں شہید کر دیا؟جو لوگ کہتے ہیں مصافحہ سنت ہے ، وہ درست کہتے ہیں، مگر ان کا یہ کہنا غلط ہے کہ نقصان کے اندیشے کے باوجود مصافحہ کرنا سنت ہے بلکہ یہاں مصافحہ نہ کرنا سنت ہے ۔
ثقیف کے وفد میں ایک کوڑھی شخص بھی دربارِ رسالت میں حاضر ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے مقام سے ہی لوٹا دیا، نہ عملاً بیعت کی، نہ مصافحہ کیا اور نہ سامنا ہی کیا۔صحیح مسلم: 2231گویا ایسے موقع پر مصافحہ کرنا نہیں، نہ کرنا سنت ہے ۔
جو لوگ کہتے ہیں ایمان کے ہوتے ہوئے احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں ،وہ غلط کہتے ہیں،رسول اللہ نے ارشاد فرمایا، کوڑھی سے یوں بھاگو،جیسے شیر سے خوفزدہ ہو کے بھاگتے ہو، بخاری: 5707گویا ایسے موقع پر وائرس زدہ کا سامنا کرنا نہیں، اس سے بچنا سنت ہے ۔
جو لوگ کہتے ہیں، ہمیں اللہ پر توکل ہے اور احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں ،وہ غلط کہتے ہیں،سرکار دوعالم کا فرمان ہے ، اونٹ کی رسی باندھو اور پھر توکل کرو۔ ترمذی: 2517گویا اسباب اختیار کرنا توکل ہے ، اسباب سے بے نیازی توکل نہیں۔کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ طاعون زدہ شام نہیں گئے تھے ، انھوں نے احتیاط کی تھی، چنانچہ آج کے کسی بھی شخص کا ایمان، تقویٰ اور توکل حضرت عمر سے زیادہ نہیں ہو سکتا، خواہ وہ یہ بھی کہے کہ مجھے گولی مار دو یا پھانسی دے دو۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب کہیں کوئی وبا پھیلے تو اس جگہ مت جاو اور اس وبائی جگہ سے بھی کوئی نہ آئے ، یہ ہمارے لیے بہترین مثالیں ہیں کہ قرنطینہ پر عمل کر کے ہم دین اسلام کی ہی پیروی کر رہے ہوتے ہیں، اگر اس میں ہم سنت نبوی ö کی نیت کر لیں تو ہمیں اس میں سنت اپنانے کا ثواب بھی ملے گا، ضروری نہیں ہے کہ حکومت جو پابندیاں لگا رہی ہے تو وہ اسلام کے خلاف ہی ہوں اور ویسے بھی مسلمانوں کو دین کی جانب سے یہ ہدایت ہے کہ جس ریاست میں رہو اس کے قوانین پر عمل کرو ۔
اب اگر حکومت انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کر رہی ہے تو ہمیں جذباتی انداز میں سوچنے کے بجائے بحیثیت مسلمان اپنے دین کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اس پر عمل کرنا چاہیے ، اس سے نہ صرف ہم محفوظ رہیں گے بلکہ دوسروں کو بھی محفوظ رکھ سکیں گے ۔