وفاقی بجٹ 22-2021، ایف پی سی سی آئی نے سپریم کورٹ سے نو ٹس لینے کا مطالبہ کر دیا

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وفاقی بجٹ 22-2021، ایف پی سی سی آئی نے سپریم کورٹ سے نو ٹس لینے کا مطالبہ کر دیا
وفاقی بجٹ 22-2021، ایف پی سی سی آئی نے سپریم کورٹ سے نو ٹس لینے کا مطالبہ کر دیا

کراچی: ناصر خان قائم مقام صدر ایف پی سی سی آئی نے کہا ہے کہ حکومت نے ایف پی سی سی آئی کے عملی، کاروبار دوست اور معاشی ترقی کو فروغ دینے والی تجاویز کو بجٹ میں شامل نہیں کیا ہے، جنہیں وفاقی بجٹ  22-2021 سے کافی پہلے بھیج دیا گیا تھا۔ پاکستان کی کاروباری، صنعتی اور تجارتی برادری کی نمائندہ تنظیم کو نظرانداز کرنا حکومت کی جانب سے سراسر غفلت ہے۔

ناصر خان نے بجٹ کی شق A 203 پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر کے صوابدیدی اختیارات کو مزید تقویت دی  جارہی ہے۔ اس کا نتیجہ بدعنوانی اور ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافے کی صورت میں نکلے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ سلیب متعارف کرانے کے ذریعے سیکشن A  203 میں ترمیم کی گئی ہے، لیکن ابھی بھی ایف پی سی سی آئی کا موقف ہے کہ گرفتاری اور قانونی چارہ جوئی کے اختیارات ایس ایم ایز کے لئے خوفناک اور حوصلہ شکنی کا ماحول پیدا کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ شق 203A نیب کے قانون کے مترادف ہے اور ایف بی آر کو جوابدہ بنانے کے لئے دفعات کو شامل کیا جانا چاہئے، اگر ایف بی آر کسی قسم کی بدعنوانی یا ٹیکس چوری ثابت نہیں کر سکے۔ یہ شق 203A بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی کرتی ہے اور معزز سپریم کورٹ کو ملک کے تاجروں کے تحفظ کے لئے مداخلت کرنی چاہئے۔

ایف پی سی سی آئی کے قائم مقام صدر نے یہ بھی نشاندہی کی کہFED کی مد میں فاٹا اور پاٹا کو مکمل چھوٹ دے دی گئی ہے اور فاٹا، پاٹا کی کل آبادی کی جائز ضروریات اور ٹوٹل ڈیمانڈ کے سروے کے بغیر مکمل چھوٹ دے دی گئی ہے۔ اس سے فاٹا اور پاٹا میں FED سے مستثنیٰ صنعتی اکائیوں کے مقابلہ میں ملحقہ علاقوں اور پورے ملک میں خاص صنعتوں کو غیر منافع بخش بنائے جانے کا خطرہ موجود ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ فاٹا اور پاٹا کے صنعتی یونٹ FED چھوٹ کا ناجائز فائدہ اٹھائیں اور اس کا استعمال فاٹا اور پاٹا کے علاوہ دیگر علاقوں میں سپلا ئی دینے کے لیے کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ FED چھوٹ اور اس کے بعد ہونے والے غلط استعمال کے لیے قانونی چارہ جوئی کا ایک سخت میکنیزم ہونا چاہئے۔

قائم مقام صدر ایف پی سی سی آئی ناصر خان نے اس بات پر اپنے افسو س کا اظہار کیا کہ ایف پی سی سی آئی نے ٹیکس نظام میں اصلاحات اور ٹیکس کی شرحوں کو آسان بنانے سے متعلق اپنی سفارشات وزیر اعظم کو ارسال کیں اور انہوں نے ایف بی آر کو ایف پی سی سی آئی کے ساتھ مشاورتی عمل کرنے کی ہدایت کی۔ لیکن ایف بی آر نے اس عمل کو شروع نہیں کیا۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وزیر خزانہ شوکت ترین نے وعدہ کیا تھا کہ ایف پی سی سی آئی سے مشورہ کیے بغیر بجٹ نہیں بنایا جائے گا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا۔ ناصر خان نے مشورہ دیا ہے کہ ملک میں کارپوریٹ عدالتیں قائم کی جائیں تاکہ یکے بعد دیگرے حکومتوں کی کمزور پالیسیوں کو بلینس کیا جاسکے اور ایس ایم ایز کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔

ناصر خان نے ذکر کیا کہ حیرت کی بات ہے کہ ایف بی آر نے ایک بینکر کو اپنی بجٹ اناملی کمیٹی کا سربراہ بنا دیا ہے، جن کے پاس تجارت، ایس ایم ایز اور معاشی امور کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔

ایف پی سی سی آئی کے کنوینر برائے بجٹ ایڈوائزری کونسل زکریا عثمان نے کہا کہ حکومت ملک میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لئے پالیسیوں میں مستقل مزاجی کو یقینی بنائے۔ایف پی سی سی آئی کا مطالبہ ہے کہ معزز وزیر اعظم پاکستان مداخلت کریں اور ان امور کو حل کریں جو کاروبار اور معا شی تر قی کے مخالف ہیں۔ ایف پی سی سی آئی تمام امور کو تبادلہ خیال اور باہمی فا ئدہ مند بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: رنگ روڈ کرپشن اسکینڈل میں گرفتاریوں سے پی ٹی آئی کا وعدہ پورا ہوگیا، فردوس عاشق

Related Posts