عید الاضحی :مذہبی فریضہ اور ذمہ داری

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Eid ul Adha: Celebrating it in a responsible way

عید الاضحی مسلمانوں کا سب سے بڑا مذہبی تہوار سمجھا جاتا ہے، اس عید پر سنت ابراہیمی ؑ کی پیروی کرتے ہوئے مسلمان ایثار و قربانی کو فروغ دیتے ہیں اور اس موقع پر دنیا بھر میں جانور قربان کئے جاتے ہیں ، اس عید پر جہاں مذہبی فریضہ کی ادائیگی کو بہت زیادہ ترجیح دی جاتی ہے اسی طرح کچھ اخلاقی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں ۔

بڑی عید جہاں حج اور قربانی جیسی خوشیاں لیکر آتی ہے وہیں کاروبار کے کئی در بھی وا کرتی ہے، پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق ہر سال عید الاضحی پر 4 کھرب تک کا کاروبار ہوتا ہے، اس عید پر کئی کاروبار بھی فروغ پاتے ہیں اور بڑے پیمانے پر چمڑے کی صنعت کو بھی فائدہ ہوتا ہے تاہم اس عید پر ہر سال کچھ مسائل بھی بہت زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آتے ہیں۔

عید پر کاروبار
پاکستان کے مختلف گاؤں دیہات اور شہروں میں مویشی پالنے کا کاروبار عام ہے، مویشی مالکان سال بھر جانوروں کو پال کر عید پر قربانی کیلئے فروخت کرکے بھاری معاوضہ کماتے ہیں جس سے سال بھر کے اخراجات پورے کئے جاتے ہیں۔ عید الاضحی پر عید الفطر کے برعکس کپڑوں کے بجائے قربانی کا رجحان زیادہ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ نئےکپڑوں پر بھی خرچ کرتےہیں جبکہ اس عید پر چارہ بیچنے ، چھریاں ، جانوروں کی آرائش و زیبائش کا سامنا بیچنے کیلئے بھی خصوصی اسٹالز لگائے جاتے ہیں اور اس کاروبار سے بھی بھرپور منافع کمایا جاتا ہے۔

گلی محلوں میں قربانی اور صفائی ستھرائی کا مسئلہ
پاکستان میں ہر سال عید الاضحی سے قبل شہری مویشی منڈیوں کا رخ کرتے ہیں اور ہر انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی بساط کے مطابق اچھے سے اچھا جانور خرید کر لائے اور اللہ کی راہ میں قربان کرے اور شہری جانور لاکر گھروں کے باہر باندھ دیتے ہیں جس کی وجہ سے گلی محلوں میں گندگی کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں اور شومئی قسمت کے ہمارے ملک کے شہری صفائی جسے اسلام میں نصف ایمان کا درجہ دیا گیا ہے اس سے انتہائی دور دکھائی دیتے ہیں۔

پاکستان کے تقریباً ہر شہر میں صفائی ستھرائی کے مسائل ہیں، صفائی ستھرائی پر مامور ادارے صرف سڑکوں کی صفائی کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ گلی محلوں میں صفائی کا رجحان بہت کم ہے جبکہ عید پر گلی محلوں میں قربانی کے بعد خون وہیں جم جاتا ہے اور اکثر جانوروں کی آلائشیں اور دیگر گندگی بھی گھروں کے باہر پھینک دی جاتی ہے۔

قصابوں کی کمیابی
عید الاضحی پر قصاب تک رسائی بھی ایک مشکل مرحلہ ہے ، اکثر لوگ آج بھی اپنے ہاتھوں سے قربانی کرتے ہیں لیکن بڑی تعداد میں لوگ قصاب سے قربانی کروانے کو ترجیح دیتے ہیں اور اس عید پر قصاب بھی موقع پر بھرپور فائدہ اٹھاکر کئی گنا زیادہ معاوضہ لیتے ہیں اور کئی موسمی قصائی بھی ہاتھوں میں چھریاں اور بغدے اٹھاکر اس عید پر روزی روٹی کمانے کیلئے میدان میں آجاتے ہیں۔

اجتماعی قربانی
عید قرباں کا مقصد ایثا ر اور قربانی ہے لیکن ہمارے ملک میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ محض نمود و نمائش اور خود کو برتر ثابت کرنے کیلئے مہنگے سے مہنگا جانور خریدکر دوسروں پر رعب جمانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن لوگ شائد یہ بھول جاتے ہیں جس رب العزت کی راہ میں وہ قربانی کررہے ہیں وہ دلوں کے بھید جانتا ہے اس لئے جانور کیسا بھی ہو آپ کی نیت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ملک میں کورونا وائر س کی وجہ سے قوت خرید کم اور مہنگائی زیادہ ہونے کی وجہ سے امسال اجتماعی قربانی کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں آپ کی قربانی قبول ہوجاتی ہے ۔

ہماری ذمہ داری
امسال سندھ حکومت نے کراچی میں گلی محلوں میں قربانی پر پابندی عائد کرکے قربانی کیلئے چند مقامات مختص کئے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو جدہ، دبئی، ابوظہبی، استنبول دیگر مسلمانوں اکثریتی علاقوں میں مخصوص مقامات پر قربانی کی جاتی ہے جہاں ماہر قصاب موجود ہوتے ہیں اور یہاں قربانی کرکے گوشت بناکر لوگوں کے حوالے کردیا جاتا ہے اور صفائی پر مامور ادارے بھی ایک جگہ سے آلائشیں اٹھاکر لیجاتے ہیں جس سے کسی کو بھی مشکل پیش نہیں آتی ، کسی مخصوص مقام پر قربانی کرنے سے صفائی ستھرائی، وبائی امراض اور قصابوں کی عدم دستیابی جیسے مسائل پر قابو پایا جاسکتاہے۔اس لئے اب ہماری ذمہ داری ہے کہ اس عید پر پرانی روایات سے نکل کر اب اگر حکومت نے کوئی اچھا اقدام اٹھایا ہے تو اس پر حکومت کا ساتھ دیکر ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں ۔

Related Posts