بھارت میں کسانوں پر مظالم سے کیا واقعی خالصتان تحریک کو طاقت ملے گی ؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بھارت میں کسانوں پر مظالم سے کیا واقعی خالصتان تحریک کو طاقت ملے گی ؟
بھارت میں کسانوں پر مظالم سے کیا واقعی خالصتان تحریک کو طاقت ملے گی ؟

ہمسایہ ملک بھارت میں ستمبر کے دوران کسان مخالف متنازعہ قوانین منظور ہوئے جس کے خلاف ملک بھر میں شدید احتجاج کیا گیا۔

احتجاج بھارتی دارالحکومت سے نکل کر ملک کے کونے کونے میں پھیل گیا جس سے ایک عام تاثر یہ پیدا ہوا کہ بھارتی حکومت کسی بھی وقت منہ کے بل جا گرے گی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت میں کسانوں پر مظالم سے کیا واقعی علیحدگی پسند تحریکِ خالصتان کو تقویت مل سکتی ہے۔ آئیے اِس سوال کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتے ہیں۔

کسان مخالف قوانین کی منظوری اور احتجاج  کا آغاز

بھارتی صدرِ مملکت نے ملک کی کئی ریاستوں میں کسانوں کے بھرپور احتجاج کے باوجود 3 متنازعہ بلوں کو منظور کرکے قانون کی حیثیت دی جسے نریندر مودی حکومت کی کسان دشمن پالیسی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ 

مقبوضہ کشمیر پر مظالم، لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی خلاف ورزی اور عالمی برادری میں لاتعداد معاملات پر غیر حقیقت پسندانہ پالیسیوں کے باعث مودی حکومت ویسے ہی عالمی برادری میں اچھی خاصی بدنام ہوچکی ہے۔

دہلی میں ہونے والے مسلم کش فسادات اور مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کا معاملہ اور پھر پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے معاملات پر بھارتی حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ایسے میں ملک بھر میں جاری کسان مخالف احتجاج سے مودی حکومت کا نیا چہرہ بھارتی عوام کے سامنے آیا اور خود بھارتی میڈیا بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوا کہ مودی حکومت کو ایسے قوانین منظور نہیں کرنے چاہئیں۔

ملک کے مختلف شہروں اور دیہات کی سڑکوں تک پر یہ احتجاج ریکارڈ کیا گیا جس پر کسانوں کا کہنا تھا کہ یہ قوانین ہمارے بنیادی حقوق کو متاثر کرتے ہیں جن سے ہم زرعی اشیاء کی قیمتوں کے تعین کا اختیار کھو دیں گے اور بڑے ریٹیلرز ان قیمتوں کوکنٹرول کرنے لگ جائیں گے۔

بلز پر اپوزیشن اور بی جے پی کے اختلافات 

حزبِ اختلاف کی اہم سیاسی جماعت کانگریس نے بھی کسانوں کے خلاف بلز پر مظاہروں کی حمایت کی۔ حکومت کا کہنا تھا کہ یہ سب سے بڑی اصلاح ہے جو ہم زراعت کے شعبے میں بھارت کے قیام کے بعد سے لا رہے ہیں۔

وزیرِ اعظم جمہوریہ بھارت نریندر مودی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ ایم ایس پی میں اضافہ کسانوں کی مضبوطی اور استحکام کا باعث ہوگا جس سے ان کی آمدنی دو گنا ہوجائے گی۔

دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ بی جے پی نے پارلیمانی قواعد کو پامال کردیا اور متنازعہ قوانین منظور کروائے۔ پارلیمان میں پیش ہونے سے قبل قوانین کا مسودہ کمیٹیوں میں بحث کیلئے بھی نہیں بھجوایا گیا۔ 

ظالمانہ ہتھکنڈے اور کسانوں کا ردِ عمل 

احتجاج پھیلتا چلا گیا اور نریندر مودی حکومت بھی کالے قوانین سے پیچھے نہ ہٹی۔ حکومت نے کسانوں پر دفعہ 144 نافذ کرنے کی دھمکی دے کر احتجاج کا حق بھی چھیننے کی کوشش کی جس پر 30 نومبر کو کسانوں نے مودی سرکار کو سمجھایا کہ اگر طاقت کا استعمال کیا گیا تو کسان بھی چپ نہیں بیٹھیں گے۔

عالمی میڈیا کے مطابق احتجاج بھارت کے جن علاقوں سے شروع ہوا تھا، وہاں سے بھارتی پنجاب، ہریانہ اور یو پی سمیت متعدد ریاستوں میں پھیل گیا اور متعدد کسان تنظیمیں جوق درجوق احتجاجی تحریک کی مضبوطی کا باعث بنتی رہیں۔

تنظیموں نے دفعہ 144 کی دھمکی کے جواب میں دفعہ 288 لکھ کر حکومت کو پیغام دیا کہ طاقت کا استعمال حکومت کے حق میں اچھا نہیں ہوگا۔ 

پاکستان کا ردِ عمل 

وفاقی وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے 2 روز قبل بھارتی کسانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہمارا دل سرحد کی دوسری سمت موجود پنجابی کسان بھائیوں کے ساتھ دھڑک رہا ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ ظلم کسی بھی جگہ ہو، ہر ایک کیلئے خطرہ ہوتا ہے، لہٰذا پاکستان کو بھی پنجابی کسانوں کے ساتھ ناانصافی پر آواز بلند کرنا ہوگی۔ مودی حکومت کی پالیسیاں سارے خطے کیلئے خطرناک ہیں۔ 

عالمی برادری کے ردِ عمل پر بھارت کا رویہ 

کینیڈین وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے کھل کر بھارتی کسانوں کے مظاہرے کی حمایت کی جس پر بھارتی حکومت نے کینیڈین ہائی کمشنر کو طلب کر لیا۔

یہی نہیں بلکہ بھارتی حکومت نے احتجاج کے خلاف گفتگو پر سابق بھارتی کرکٹر یوراج سنگھ کے والد کو بھی دھمکیاں دیں تاہم مودی حکومت کے ہتھکنڈوں سے کسان مرعوب نہیں ہوئے۔ 

بھارتی میڈیا اور تحریکِ خالصتان کو تقویت دینے کا الزام 

کسانوں نے مودی حکومت کی ایک بھی شرط منظور نہ کرتے ہوئے کہا کہ چاہے فوج لائی جائے یا سی آر پی، بی ایس ایف اہلکار لاؤ یا مشین گنیں اور ٹینک لا کر ہمیں بھون ڈالو، احتجاج کسی صورت ختم نہیں ہوگا جب تک ہمارے مطالبات نہ مانے جائیں۔

سکھ رہنما امرجیت سنگھ نے پاکستان میں حکومت اور میڈیا سے ہندوتوا کی پیروکار مودی حکومت کے خلاف تعاون کی اپیل کر ڈالی اور سکھ فوج کو تحریکِ خالصتان میں شامل ہو کر علیحدگی پسندی کو فروغ دینے کی دعوت دی۔

واضح رہے کہ خالصتان تحریک کا مطلب ایک ایسی ریاست کا قیام ہے جہاں سکھ عوام اپنی مرضی سے جی سکیں اور انہیں مودی حکومت یا بھارت کی کسی بھی حکومت کو جوابدہ نہ ہونا پڑے۔امر جیت سنگھ کا کہنا تھا کہ  بھارتی حکومت اور کٹھ پتلی میڈیا کسانوں کے احتجاج کو دبا کر کسانوں کوخالصتانی کہہ رہا ہے۔

ملک گیر ہڑتال کی کال 

گزشتہ روز بھارتی کسان تنظیموں نے زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے ملک گیر ہڑتال کی کال دی جس کی حمایت اپوزیشن جماعتوں نے بھی کی۔ مشتعل کسانوں کے ساتھ اپوزیشن کی 24 سیاسی جماعتیں ہیں۔

مودی حکومت نے دہلی کے وزیرِ اعلیٰ اروند کیجریوال کو نظر بند کیا تو کسانوں نے بھارت کو بند کردیا۔ مختلف ریاستوں میں دکانیں، ٹرانسپورٹ اور ٹرین سروس معطل ہوئی اور تعلیمی امتحانات بھی ملتوی کرا دئیے گئے۔

چودہ روزہ احتجاج کے دوران مودی حکومت اور کسانوں کے درمیان کوئی اتفاقِ رائے نہیں ہوسکا۔ نئی دہلی سے شروع ہونے والا احتجاج ملک بھر میں پھیل گیا ہے۔ 

پاکستان میں کسانوں کی صورتحال 

حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں تو کسان احتجاج پر اتر آئے لیکن پاکستان میں بھی محنت کش اور خون پسینہ بہانے والے کسانوں کے حالات بھارت سے زیادہ مختلف نہیں ہیں، وہاں تو حکومت علی الاعلان کسان مخالف قوانین لا رہی ہے لیکن یہاں بھی کسانوں کا استحصال کچھ کم نہیں ہے۔

نومبر کے دوران پاکستان کسان اتحاد اور کسان رابطہ کمیٹی نے ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران زخمی ہو کر جاں بحق ہونے والے کسان کی موت کا ذمہ دار سی سی پی او لاہور کو قرار دے دیا۔

ان کا مطالبہ تھا کہ سی سی پی او لاہور کو برطرف کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت  گرفتار کیے جانے والے کسانوں کو فوری طور پر رہا کرے اور مقدمات ختم کردئیے جائیں جبکہ گندم کی فی من امدادی قیمت 2 ہزار روپے ہونی چاہئے۔

حکومتِ پنجاب کا کہنا تھا کہ اشفاق لنگڑیال دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے جس پر کسان رہنماؤں نے بتایا کہ وہ صحت مند انسان تھے جن کی ہلاکت پولیس کے جبروتشدد، مارپیٹ اور کیمیکل ملے پانی سے ہوئی۔ اشفاق لنگڑیال کا انتقال ایک مظاہرے کے دوران رواں برس 4 نومبر کو ہوا تھا۔

اس پر کسان اتحاد رہنماؤں نے کہا کہ کسانوں کی داد رسی کی بجائے حکومت مقدمے درج کرتی پھر رہی ہے۔ گندم کا بحران موجودہ حکومت کی ناقص حکمتِ عملی اور نااہلی کے باعث پیدا ہوا۔ 

ظلم اور انصاف کا معاملہ 

کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی حکومت کبھی قائم نہیں رہ سکتی اور پاکستان اور بھارت دونوں جگہ کسانوں پر ظلم کیاجاتا ہے، اس بات سے کسی بھی ذی شعور انسان کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔

انصاف یہی ہے کہ کسانوں کو ان کا حق دیا جائے۔ پاکستان اور بھارت سمیت دنیا کی کسی بھی حکومت کے پاس یہ اختیار نہیں ہونا چاہئے کہ وہ کسانوں کے بنیادی حقوق کو غصب کرسکے کیونکہ کسانوں کا پیشہ ایک کلیدی پیشہ ہے اور دیگر بے شمار شعبہ جات اسی کے بطن سے برآمد ہوئے ہیں۔ 

Related Posts