رواں برس کیلئے زکوٰۃ کا نصاب اور بینک اکاؤنٹس سے رقم کی کٹوتی کی روایت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

رواں برس کیلئے زکوٰۃ کا نصاب اور بینک اکاؤنٹس سے رقم کی کٹوتی کی روایت
رواں برس کیلئے زکوٰۃ کا نصاب اور بینک اکاؤنٹس سے رقم کی کٹوتی کی روایت

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ہر سال رمضان المبارک میں بینک اکاؤنٹس سے زکوٰۃ کی کٹوتی کی جاتی ہے جبکہ حکومت نے رواں برس کیلئے زکوٰۃ کا نصاب 80 ہزار 933 روپے مقرر کیا ہے۔

توجہ طلب بات یہ ہے کہ زکوٰۃ خالصتاً ایک اسلامی و شرعی معاملہ ہے اور ملک بھر کے بینک اکاؤنٹس سے رقم کی کٹوتی کی روایت بے شمار مسلمانوں کو پسند نہیں کیونکہ ہر مسلمان زکوٰۃ اپنے ہاتھوں سے مستحقین تک پہنچانا چاہتا ہے۔ آئیے زکوٰۃ کے نصاب سمیت مختلف دیگر حقائق پر غور کرتے ہیں۔

زکوٰۃ کا سرکاری نصاب اور کٹوتی کا عمل

ایڈمنسٹریٹر جنرل کی جانب سے ہجری سال 42-1441 کیلئے زکوٰۃ کا نصاب 80 ہزار 933 روپےمقرر کیا گیا ہے  جبکہ گزشتہ برس زکوٰۃ کا نصاب 46 ہزار 329روپے مقرر کیا گیا تھا۔ 

وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے اعلان کے مطابق رواں برس رمضان المبارک کی پہلی تاریخ بدھ کے روز 14 اپریل کو متوقع ہے جس کیلئے رویتِ ہلال کمیٹی کا اجلاس منگل کے روز منعقد ہوگا جس میں چاند نظر آنے یا نہ آنے سے متعلق اعلان کیا جائے گا۔

پاکستانی شہریوں کے جن سیونگ اکاؤنٹس میں 80 ہزار 933 روپے سے زائد رقم موجود ہوگی، ان سے 2 اعشاریہ 5 فیصد زکوٰۃ کی کٹوتی کی جائے گی تاہم پے منٹ اکاؤنٹ، کمپنی اکاؤنٹ یا ڈیکلریشن اکاؤنٹ سے کٹوتی نہیں کی جائے گی۔

یکم رمضان المبارک سے بینک ازخود زکوٰۃ کی کٹوتی کرنا شروع کردیں گے۔ سن 2019ء میں زکوٰۃ کا نصاب 44 ہزار 415 روپے مقرر تھا جو 52 تولے چاندی کی مالیت کے برابر رقم بنتی ہے۔ آج یہ رقم 80 ہزار 933روپے مقرر کی گئی ہے۔ 

مصارفِ زکوٰۃ اور شریعتِ اسلامی

شریعتِ اسلام کا سب سے بڑا مآخذ قرآن اور حدیث ہیں۔ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 60 میں اللہ تعالیٰ نے مصارفِ زکوٰۃ واضح طور پر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ صدقات صرف فقیروں اور مسکینوں کیلئے اور (زکوٰۃ جمع کرنے والے) عاملین کیلئے اور ان کیلئے جن کے دلوں میں الفت ڈالنا مقصود ہو اور گردنیں چھڑانے کیلئے اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کیلئے ہے)۔ یہ اللہ کی طرف سے فرض ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور کمال حکمت والا ہے۔

مجموعی طور پر 8 مصارفِ زکوٰۃ بیان کیے گئے ہیں جن میں سے پہلا اور دوسرا فقراء اور مساکین پر خرچ کرنا ہے۔ تیسرا مصرف عاملینِ زکوٰۃ ہیں یعنی جو لوگ زکوٰۃ جمع کرنے والے ملازمین ہوتے ہیں۔ چوتھا مصرف یہ ہے کہ جن کی تالیفِ قلبی مراد ہو۔ مثال کے طور پر وہ نومسلم جنہیں اسلام پر قائم رکھنے کیلئے مالی مدد کی جائے۔

پانچواں مصرف گردنیں چھڑانا یعنی غلاموں کو آزاد کرانا ہے۔ چھٹا مصرف قرض اٹھانے والے افراد کی مدد کرنا ہے۔ ساتواں مصرف فی سبیل اللہ یعنی اللہ کے راستے میں جہاد کیلئے رقم خرچ کرنا ہے اور جہاد سے مراد صرف ہتھیار اٹھانا نہیں ہوتا جبکہ آٹھواں مصرف مسافروں کی مدد کرنا ہے۔ کوئی شخص کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو اگر سفر کے دوران غریب ہوجائے تو اس کی مدد زکوٰۃ سے کی جاسکتی ہے۔ 

کیا بینک اکاؤنٹ سے کٹوتی پر زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے؟

جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ یوسف بنوری ٹاؤن کراچی کے ایک آن لائن فتوے کے مطابق حکومت بینک کے ذریعے جو زکوٰۃ کی رقم کاٹتی ہے، اگر اصحابِ رقم کی اجازت اور اطلاع کے بغیر کاٹتی ہے تو نیت اور اختیار سے زکوٰۃ نہ کاٹے جانے کے باعث زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔

فتوے میں مزید کہا گیا ہے کہ جو لوگ زکوٰۃ جمع کراتے وقت بینک والوں کو زکوٰۃ کاٹنے کا اختیار دیں یا اس کی نیت کر لیں تو زبردستی رقم وصولی کے باوجود بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ 

آخری سوال یہ ہے کہ حکومت مصارفِ زکوٰۃ کے مطابق رقم خرچ بھی کرتی ہے یا نہیں؟ تو اس کی ذمہ داری انفرادی طور پر حکومت اور اجتماعی لحاظ سے متعلقہ افسران پر عائد ہوتی ہے۔ گویا رقم کی ادائیگی کے بعد صاحبِ نصاب افراد جن پر زکوٰۃ کی ادائیگی واجب تھی، بینک اکاؤنٹس سے کٹوتی کے بعد اپنے فرض سے عہدہ برآ ہوجائیں گے، تاہم اگر زکوٰۃ کی رقم اپنے ہاتھوں سے مستحقین میں تقسیم کی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔

 

Related Posts