پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج پانی کا عالمی دن منایا جارہا ہے جبکہ پانی زندگی کی بنیادی ضروریات میں سانس لینے کے لیے آکسیجن کے بعد سب سے زیادہ اہم ہے۔
سن 1993ء میں پہلی بار پانی کا عالمی دن اقوامِ متحدہ کی کانفرنس برائے ماحولیات کی تصدیق کے بعد منایا گیا جسے عوام الناس کے لیے پانی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ترویج دی گئی۔
رواں سال گندے پانی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا یہ دن منانے کا اہم مقصد قرار دیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں 90 کروڑ سے زائد لوگ آج بھی پینے کا صاف پانی حاصل نہیں کرسکتے۔
مملکتِ خداداد پاکستان میں پینے کا پانی طویل عرصے تک وافر مقدار میں دستیاب رہا، تاہم اب پینے کا پانی کم ہوتا جارہا ہے۔ ملک کی آبادی تقریباً 22 کروڑ ہے جبکہ بھارت کی طرف سے دریائی پانی بند کرنے کی دھمکیاں بھی جاری ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کے 80 فیصد سے زائد افراد پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ یہ لوگ بہتے ندی نالوں سے پانی حاصل کرتے ہیں جو گزشتہ ادوار میں کسی قدر صاف تھے، تاہم اب آبی آلودگی کا شکار ہیں۔
اگر ڈیمز اور پانی کے ضروری آبی ذخائر کے حوالے سے ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے تو آج سے 5 سال بعد پاکستان میں خشک سالی پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے 17 ممالک میں پینے کا پانی مناسب مقدار میں دستیاب نہیں۔
قیامِ پاکستان کے وقت فی شہری 5،600 کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا جو رفتہ رفتہ کم ہوتے ہوتے 1 ہزار کیوبک میٹر تک آگیا جو بعد ازاں 800 کیوبک میٹر اور اس سے بھی کم ہوسکتا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا۔ شہری پانی کی بوند بوند کے لیے ترس گئے۔
اسلام آباد کے سیکٹر جی 6، جی 7، ایچ 8 اور دیگر سیکٹرز میں گزشتہ ماہ پانی کی شدید قلت رہی جبکہ ڈائریکٹر واٹر سپلائی اس سے لا علم نظر آئے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد میں پانی کا بحران: شہری پانی کی بوند بوند کو ترس گئے