وطنِ عزیز پاکستان سمیت دُنیا بھر میں آج ٹوائلٹ یعنی بیت الخلاء کا عالمی دن منایا جارہا ہے جس کا مقصد صحت و صفائی، نکاسئ آب اور بیت الخلاء سے محروم افراد کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے۔
دُنیا بھر کی 25 فیصد سے زائد آبادی آج بیت الخلاء سے محروم ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح 10 فیصد ہے جو 2 کروڑ سے زائد افراد پاکستانی شہری بنتے ہیں۔
ہمارے یہ 10 فیصد ہم وطن بد قسمتی سے رفع حاجت کیلئے کھیت کھلیانوں کا رخ کرتے ہیں یا پھر کھلے عام بیٹھتے ہیں جو عزتِ نفس کی پامالی کا سبب ہے۔ آئیے ٹوائلٹ کے عالمی دن کے موقعے پر اس تلخ حقیقت پر غور کرتے ہیں کہ پاکستان کے 2 کروڑ سے زائد شہری ٹوائلٹ جیسے بنیادی انسانی حق سے کیسے محروم ہیں؟
عالمی دن کی تاریخ اور اعدادوشمار
دنیا بھر کی مجموعی آبادی کم و بیش 7 ارب 80 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے جن میں سے 25 فیصد سے زائد افراد یعنی تقریباً 1 ارب 95 کروڑ انسان ٹوائلٹ کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
اگر ہم پاکستان کی مجموعی آبادی کا جائزہ لیں تو 2018ء کے اعدادوشمار کے مطابق یہ 21 کروڑ 22 لاکھ تھی جو ورلڈ ومیٹر کے مطابق 22 کروڑ 26 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ان میں سے 10 فیصد یعنی تقریباً 2 کروڑ 22 لاکھ افراد نکاسئ آب اور بیت الخلاء سے محروم ہیں۔
عالمی ادارے اقوامِ متحدہ نے 7 سال قبل عالمی یومِ بیت الخلاء منانے کا آغاز کیا جس کا مقصد بچوں اور بڑوں کو بیت الخلاء کی عدم دستیابی پر صحت و صفائی کے مسائل سے بچانا ہے۔
ٹوائلٹ نہ ہونے سے پیش آنے والے مسائل
صحت و صفائی انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے۔ پاکستان میں گندے پانی اور صفائی کی ناقص صورتحال کے باعث اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطبق ہر روز 5 سال کی عمر تک کے 110 بچے دست، اسہال اور ٹائیفائیڈ جیسی بیماریوں کا شکار ہو کر جاں بحق ہوجاتے ہیں جو ایک دردناک صورتحال ہے۔
ماہانہ 3 ہزار 300 اور سالانہ 40 ہزار 150 بچے صحت و صفائی نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں 8 لاکھ 29 ہزار افراد گندے پانی سے ہونے والی بیماریوں کے باعث ہلاک ہوتے ہیں۔
صفائی کے مختلف طریقے اور حقیقی اصول
ایک جانب تو ناپاکی سے بچنے کیلئے ہاتھ پانی اور صابن سے دھونا اسلامی اصولوں کا حصہ ہے جبکہ بہت سے مغربی ممالک میں بیت الخلاء استعمال کرنے کے بعد ٹشو پیپر سے صفائی کی روایت قائم ہے۔
یہ مغربی رواج 21ویں صدی میں شاید مسلم ممالک کیلئے حیرت کا باعث ہو، تاہم حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی کاغذ یا دیگر مادے کے مقابلے میں پانی اور صابن سے ہاتھ صاف کرنا زیادہ بہتر نتائج لاتا ہے۔
جاپان میں چھوٹے سائز کا معروف ٹوائلٹ استعمال کیا جاتا ہے جس میں پانی سے گیلا کرنے اور سکھانے سمیت ہر طریقہ موجود ہے۔ بعض آسٹریلوی مسلمانوں نے مغربی طرز کا باتھ روم اپنانے کے باوجود ایک مگ پانی اور شاور کے نلکے سے خود کو دھونے کا طریقہ اپنا رکھا ہے۔
آپ کا طریقہ چاہے کچھ بھی ہو، جراثیم سے پاک ہونا اور بدبو سے نجات حاصل کرنا دو اہم مقاصد ہیں جو صفائی سے حاصل ہونے چاہئیں، اگر ان میں سے کوئی ایک بھی شرط پوری نہیں ہوتی تو اس سے انسان بیمار ہوسکتا ہے۔
بیت الخلاء فراہمی کے دعوے
اقوامِ متحدہ نے 4 سال قبل شروع ہونے والے اپنے پائیدار ترقیاتی اہداف میں طے کیا کہ سن 2030ء تک دنیا کے ہر شخص کو صاف ستھرا بیت الخلاء فراہم کیا جائے گا۔
دوسری جانب وزیرِ اعظم عمران خان بھی یہ وعدہ کرچکے ہیں کہ آئندہ 3 برسوں میں پاکستان کے 22 کروڑ عوام کیلئے ٹوائلٹس تعمیر کیے جائیں گے۔
تعلیم کی کمی
مسئلہ صرف اتنا چھوٹا سا نہیں کہ بیت الخلاء موجود نہیں تو آپ تعمیر کر لیں، بلکہ تعلمی کی کمی اس سے بھی بڑا مسئلہ ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر کے بے شمار لوگ یہ جانتے ہی نہیں ہیں کہ رفع حاجت کیلئے بیت الخلاء استعمال کرنا چاہئے کیونکہ بہت سے لوگ بیت الخلاء کی بجائے خود باہر بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
دوسری جانب اگر بیت الخلاء استعمال کر لیا تو امریکا اور برطانیہ سمیت بعض مغربی ممالک میں تو ٹشو پیپر سے ہاتھ صاف کیے جاتے ہیں جس سے ان کا شعور واضح ہوتا ہے لیکن جنوبی ایشیاء اور افریقہ کے بعض ممالک میں لوگ ہاتھ دھونے کی اہمیت سے بھی واقف نہیں ہیں۔
عزت و ناموس کا مسئلہ
مرد حضرات کے ساتھ ساتھ نوجوان لڑکیاں اور بچیاں بھی خصوصاً پاکستان کے دیہات میں ٹوائلٹ کی سہولت سے محروم ہیں جو بعض اوقات رات کے وقت رفع حاجت کیلئے جاتی ہیں۔
یہ انتہائی غیر محفوظ اور عزت و ناموس کا بہت بڑا مسئلہ ہے جس میں مرد یا عورت کی کوئی تخصیص نہیں، تاہم خواتین کی عزت و احترام کو مردوں سے الگ اہمیت دی جاتی ہے۔
عزتِ نفس کیلئے یہ ایک علیحدہ سوال ہے کیونکہ جو لوگ کھلے عام رفع حاجت کے بارے میں کوئی علم نہیں رکھتے، جب وہ ایسے علاقوں میں جاتے ہیں جہاں یہ عام ہے تو انہیں سخت گھن آتی ہے اور وہ اس پر ان لوگوں کو برا بھلا بھی کہتے ہیں۔
ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
سب سے پہلی بات یہ کہ لوگوں کو یہ تعلیم دی جائے کہ ٹوائلٹ ایک اہم ضرورت ہے، صحت و صفائی انسان کا وہ بنیادی حق ہے جس کی تعلیم اسلام جیسے مذہب نے ہمیں دی جو آج سے 14 سو سال سے بھی پہلے کا قدیم دین ہے۔
حضورِ اکرم ﷺ نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا اور ناپاکی سے بچنے کیلئے ہاتھوں کو پانی سے دھونے کا طریقہ بیان فرمایا جو ہر مسلمان کے ایمان کا ناقابلِ تردید حصہ ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ صحت و صفائی کی سہولیات بھی فراہم کی جائے۔ وزیر اعظم عمران خان 3 برس میں ٹوائلٹس فراہم کرنے کا جو وعدہ کرچکے ہیں، وہ اس کی ایک اہم مثال ہے۔
تیسرا اقدام یہ ہوگا کہ صفائی ستھرائی کا خیال ٹوائلٹ کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر موڑ پر اور ہر عمل کے دوران ضرور رکھیں۔ زندگی صحت و صفائی کے بنیادی مسائل میں الجھ کر ضائع کرنے کیلئے نہیں ہے بلکہ ہر انسان کو بہت بڑے مقصد کے تحت اِس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔