کمسن بچیوں کا عالمی دن اور انسانی حقوق کی سنگین صورتحال، ہمیں کیا کرنا چاہئے؟

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کمسن بچیوں کا عالمی دن اور انسانی حقوق کی سنگین صورتحال، ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
کمسن بچیوں کا عالمی دن اور انسانی حقوق کی سنگین صورتحال، ہمیں کیا کرنا چاہئے؟

پاکستان سمیت دُنیا بھر میں کمسن بچیوں کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے جبکہ بچہ بچہ اِس حقیقت سے خوف واقع ہے کہ انسانی حقوق بالخصوص کمسن بچیوں کے حقوق کی صورتحال آج کتنی سنگین ہے۔

سوال یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور حکومت اپنا کام درست طریقے سے کیوں نہیں کرتی اور اگر حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے تو اس کیلئے حکومت کو کیا کرنا چاہئے؟ آئیے ایسے ہی کچھ سوالات کے جوابات تلاش کرتے ہیں۔ 

کمسن بچیوں کا عالمی دن اور رواں برس کا موضوع

رواں برس کمسن بچیوں کے عالمی دن کا موضوع میری آوازاور ہمارا یکساں مستقبل رکھا گیا ہے جبکہ کمسن بچیوں کے عالمی دن کے موقعے پر غور طلب بات یہ ہے کہ یکساں مستقبل سے مراد بچوں اور بچیوں کا یکساں مستقبل ہے۔

دُنیا بھر میں کمسن بچیوں کو مختلف مسائل کا سامنا ہے جن میں ظلم وجبر، مار پیٹ، جنسی زیادتی اور قتل جیسے مسائل سرِ فہرست ہیں جبکہ تعلیم، صحت و صفائی اور دیگر بنیادی انسانی حقوق کی عدم فراہمی سمیت مسائل کی فہرست طویل ہے۔

ایسے میں یکساں مستقبل کا خواب بے حد کٹھن سفر کا متقاضی ہے جس میں پے درپے مشکلات اور مسائل کا سامنا ہوگا جس کے مقابلے کیلئے آج عالمی برادری کو باہمی تعاون سے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا تاکہ ایسے تمام تر مسائل کا حل نکالا جاسکے۔

عالمی دن پر اقوامِ متحدہ کے 3 نکات

اقوامِ متحدہ نے رواں برس عالمی برادری کے سامنے 3 نکات رکھے ہیں جن کا مقصد کمسن بچیوں کو یکساں انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔

مذکورہ تین نکات میں پہلا نکتہ یہ ہے کہ  بچیوں کو صنفی امتیاز کی بنیاد پر ظلم وتشدد، نقصان دہ عوامل، ایچ آئی وی اور ایڈز  سے بچانا ہے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ بچیاں اپنے مستقبل کیلئے نئی تعیلم و تربیت حاصل کریں اور مہارتیں سیکھیں تاکہ وہ بہتر مستقبل کا خواب پورا کرسکیں۔

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ سماجی تبدیلی کو فروغ دیتے ہوئے کمسن بچیاں ایکٹیوسٹ یعنی فعالیت پسند کا کردار ادا کریں اور معاشرے میں تبدیلی کیلئے اہم کردار ادا کریں۔ 

بچیوں کے مسائل پر اعدادوشمار 

ہرسال 1 کروڑ 20 لاکھ 18 سال سے کمسن بچیوں کی شادی کرا دی جاتی ہے جسے چائلڈ میرجز کہا جاتا ہے یعنی بالغ لڑکیوں کی بجائے بچیوں کی شادی جس پر آج پاکستان میں بھی پابندی عائد ہے اور بے شمار کیسز میں دولہا سمیت دیگر ذمہ داران کو گرفتار بھی کیا گیا۔

یہی اعدادوشمار ہر روز کے حساب سے 32 ہزار 877 بچیوں کی شرح بتاتے ہیں اور انہی اعدادوشمار کا مزید تجزیہ کیجئے تو پتہ چلتا ہے کہ ہر 2 سیکنڈ میں کم و بیش 1 بچی کی شادی کردی جاتی ہے جو ابھی عملی زندگی کیلئے تیار بھی نہ ہوئی ہو۔

دُنیا بھر کی 13 کروڑ بچیاں پرائمری یا سیکنڈری سطح کی تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں یعنی تعلیم کے حق سے مکمل طور پر محروم جبکہ تقریباً 20 لاکھ بچیاں جنسی زیادتی کے باعث 15 سال سے بھی کم عمر میں حاملہ ہوجاتی ہیں۔

لڑکیوں میں 15 سے لے کر 19 سال تک کی بچیوں میں دُنیا بھر میں  زچگی کے دوران پیچیدگیاں اور بچے پیدا کرنا موت کا سب سے بڑا سبب ہے۔

زچگی کے دوران ماں یا بچے کی زندگی کو خطرہ لاحق ہونا وہ پیچیدگی ہے جس کا سامنا کسی کو بھی ہوسکتا ہے لیکن زچگی کے دوران ترقی پذیر ممالک میں مرنے والی خواتین کی تعداد دیگر ممالک کے مقابلے میں 99 فیصد ہے۔

ہر سال 27 لاکھ نو زائدہ بچے یا تو مردہ پیدا ہوتے ہیں یا پھر پیدا ہونے کے کچھ ہی وقت بعد مر جاتے ہیں جس کی وجہ قبل از وقت شادی ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے 75 فیصد بچوں کو بچایا جاسکتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔

سالانہ 1 کروڑ 60 لاکھ 15 سے 19 سال کی لڑکیاں بچے پیدا کرتی ہیں اور انہی کیسز کی ہر 10 میں سے 9 لڑکیوں کے ساتھ ایسا شادی کے بعد ہوتا ہے یعنی ہر 10 میں سے 1 لڑکی شادی سے قبل ہی جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہے۔

دُنیا بھر میں بے شمار افراد غذائی کمی اور بھوک کا شکار ہوسکتے ہیں لیکن ایسے افراد میں سے 60 فیصد یا تو لڑکیاں ہوتی ہیں یا خواتین۔

مملکتِ خداداد پاکستان دُنیا بھر میں وہ دوسرا بڑا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ بچیاں اسکول نہیں جاتیں جن کی تعداد کا تخمینہ 2 کروڑ 28 لاکھ لگایا گیا ہے۔ ایسی بچیوں کی عمریں 5 سے 16 سال ہیں جو اِسی عمر کی ملک بھر کی آبادی کا 44 فیصد بنتی ہیں۔

صرف 5 سے 9 سال کے گروہ میں 50 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے اور پرائمری اسکول کی عمر گزرنے کے بعد یہ تعداد دو گنا ہوجاتی ہے یعنی 1 کروڑ 14 لاکھ بچے جن کی عمریں 10 سے 14 سال تک جا پہنچتی ہیں۔

صوبہ سندھ میں 52 فیصد غریب بچے اسکول نہیں جاتے جن میں سے 58 فیصد لڑکیاں ہیں جبکہ بلوچستان میں 78 فیصد لڑکیاں اسکول کی تعلیم سے محروم ہیں۔ 

حقوق کے تحفظ کیلئے اقدامات 

اسلام کی ایک روایت کے مطابق کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی حکومت تادیر قائم نہیں رہ سکتی۔ حقوق کا استحصال ظلم کی دوسری شکل ہے۔

سب سے زیادہ پاکستان میں تعلیم اور خواتین کے حقوق کو پامال کیا گیا کیونکہ صنعتکاری کو فروغ اور زراعت کو عدم تحفظ کا شکار کرنے والی حکومت دراصل کمزوروں کے استحصال پر مبنی ہوتی ہے۔

غور کیا جائے تو خواتین کے حقوق صرف اور صرف طاقت کی بنیاد پر پامال کیے جاتے ہیں۔ بچیوں کا جنسی استحصال کرنے والے سمجھتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی بات نہیں کرے گا، اِس لیے حقوق کا استحصال اور جنسی زیادتی کے مسائل بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

ایک طرف تو حکومتِ وقت کو قانون کی حکمرانی کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت، صحت اور دیگر سہولیات کی فراہمی پر توجہ دینا ہوگی جن میں خواتین کو جسمانی طور پر کمزور سمجھتے ہوئے انہیں مضبوط کرنا ہوگا۔ 

دوسری جانب حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ آج اپنی بچیوں کو بھی شعور دینے کی ضرورت ہے کہ ان کے حقوق کیا ہیں اور وہ کیسے حاصل کیے جاسکتے ہیں کیونکہ حقوق کا استحصال لاعلمی کے باعث بھی ہوتا ہے جو زیادہ خطرناک بات ہے۔ 

 

Related Posts