مقبول خبریں

کالمز

zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج یکم دسمبر کو ایڈز کا عالمی دن منایا جا رہا ہے،یہ دن اس مہلک بیماری اور ایچ آئی وی وائرس کے خلاف آگاہی کے لیے منایا جاتا ہے۔

پاکستانی شہریوں کی ایک بڑی تعداد ایچ آئی وی سے متاثر ہے تاہم پاکستان میں اب بھی ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کی وجوہات اور اس حوالے سے آگاہی کی کمی ہے حتیٰ کہ اس بیماری پر بات کرنا اب بھی معیوب سمجھاجاتا ہے کیونکہ عوام کی ایک بڑی تعداد اس معتدی مرض کی مکمل وجوہات سے متعلق آگاہی نہیں رکھتی۔

ایچ آئی وی اورایڈزکو اکثر ایک ہی بیماری کے دو مختلف نام سمجھا جاتا ہے لیکن میڈیکل سائنس کے مطابق دونوں میں واضح فرق ہے۔ایچ آئی وی ہیومن ایمیونو ڈیفی شینسی وائرس کا مخفف ہے جب کسی شخص کو ایچ آئی وی پازیٹو قرار دیا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس کے خون میں ایچ آئی وی وائرس منتقل ہوچکا ہے۔ وائرس کے جسم میں منتقل ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس شخص کو ایڈز کا مریض قرار دے دیا گیا ہے۔

یہ وائرس کئی سال تک کسی متاثرہ شخص کے جسم میں خوابیدہ حالت میں رہ سکتا ہے صرف ایچ آئی وی پازیٹو ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تاحال جسمانی مدافعت اس قدر متاثر نہیں ہوئی کہ انسان بیماری کا مقابلہ نہ کر سکے، لہٰذا اسے ایڈز کا مریض قرار نہیں دیا جاتا۔ البتہ اس شخص کے ساتھ جنسی تعلق، خون کے انتقال یا اس کی استعمال شدہ سرنج دوبارہ استعمال کرنے کی صورت میں وائرس کسی دوسرے شخص میں منتقل ہونے کا خدشہ ضرور ہوتا ہے۔

جب یہ وائرس متاثرہ شخص کے جسم میں متحرک ہوجاتا ہے تو اس کی جسمانی مدافعت ختم ہوجاتی ہے، یعنی اگر متاثرہ فرد کو کوئی بھی بیماری لاحق ہوتی ہے تو اس کا خاتمہ ممکن نظر نہیں آتا۔ ان مریضوں میں بخار، اسہال اور ٹی بی جیسا انفیکشن ہوجائے تو اس کا علاج تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے کیونکہ جسم کی مدافعت ایچ آئی وی وائرس کی وجہ سے ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ اس صورتحال کو ایڈز یعنی ایکوائرڈ ایمیونو ڈیفی شنسی سنڈروم کا نام دیا جاتا ہے۔

انسانی خون میں موجود سفید خلیوں کی قسم سی ڈی 4، قوت مدافعت کی پیمائش کا اہم ذریعہ ہے۔ انہی کے ذریعے معلوم کیا جاتا ہے کہ کوئی شخص ایڈز کا شکار ہوچکا ہے یا نہیں۔ سی ڈی 4 خلیوں کی تعداد میں کمی کا پتا چلا کر اینٹی ریٹرو وائرل ادویات کا استعمال شروع کیا جاتا ہے، اور اب توایسی ادویات بنائی جاچکی ہیں کہ جو مریض کو ایچ آئی وی کا وائرس جسم میں موجود ہونے کے باوجود لمبے عرصے تک اس کے اثرات سے محفوظ رکھ سکتی ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ ایچ آئی وی اور ایڈز پھیلنے کی شرح پاکستان میں ہے، اقوام متحدہ کی جانب سے یو این ایڈز-2019 کے نام سے جاری ہونیوالی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایچ آئی وی اور ایڈز کے بڑھنے کی شرح 13 فیصد ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ شرح ہے۔

اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا 2030 تک ایڈز جیسی مہلک بیماری سے چھٹکارا پانے کا منصوبہ بنا رہی ہے لیکن پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں ایڈزمیں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔مرض کے خاتمے کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی اداروں کی جانب سے بھاری فنڈنگ کے باوجود صورتحال مزید تشوشناک ہوئی ہے۔

پاکستان میں ایچ آئی وی کے حوالے سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بیماری صرف جنسی بےراہ روی کی وجہ سے پھیلتی ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایڈز کی وجہ صرف جسمانی یا جنسی تعلقات نہیں ہے۔ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کے دنیا میں تین طریقے ہیں۔

خون سے متاثرہ اوزار یا آلات مثلاً آپریشن کے آلات یا دندان سازی کے آلات یااستعمال شدہ سرنج کا دوبارہ استعمال یا ٹیٹو کی سوئی وغیرہ۔ تو ایچ آئی وی سے متاثر شخص پر استعمال کیے گئے اوزاریا آلات کسی دوسرے شخص پر استعمال کئے جائیں تو ایچ آئی وی کا وائرس خون کے ذریعے منتقل ہوجاتا ہے۔

دوسرا طریقہ جنسی عمل ہے،خواہ عورت اور مرد کا تعلق ہو یا پھر ہم جنسی رجحان ہو، اگر دونوں پارٹنر میں سے ایک میں ایچ آئی وی موجود ہے تو اس سے دوسرا انسان ضرور متاثر ہوگا جبکہ تیسری وجہ ایچ آئی سے متاثرہ ماں سے پیدا ہونے والی اولاد ہے۔ اگر ماں کو یہ مرض ہے تو بچے میں دوران حمل، یا ڈیلیوری کے دوران یا پھر اگر ماں بچے کو اپنا دودھ پلا رہی ہے تو اس کے ذریعے یہ وائرس بچے میں منتقل ہو گا۔

اس وقت پاکستان میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے زائدایچ آئی وی سے متاثرہ افراد موجود ہیں۔ پاکستان میں جو کیسز رپورٹ ہوتے ہیں ان کی تعداد زیادہ نہیں ہے کیونکہ لوگ اپنا ٹیسٹ کروانے سے گھبراتے ہیں۔

اس کی ابتدائی علامت معمولی زکام ہوسکتا ہے جس پر عموماً دھیان نہیں دیا جاتا جبکہ ایڈز کا مریض مہینوں یا برسوں تک صحتمند بھی نظر آتا ہے یعنی وہ آہستہ آہستہ ایڈز کا مریض بنتا ہے دیگر بڑی علامات میں بہت کم وقت میں جسمانی وزن دس فیصد سے کم ہوجانا، ایک مہینے سے زیادہ اسہال رہنا، ایک مہینے سے زیادہ بخار رہنا وغیرہ شامل ہیں۔

اگر ایچ آئی وی کی تشخیص کے بعد علاج نہ کرایا جائے تو اس سے دیگر امراض جیسے تپ دق، بیکٹریل انفیکشن، کینسر اور سرسام کا خطرہ بڑھتا ہے مگر علاج سے اس وائرس کو کنٹرول کرکے مریض صحت مند زندگی گزار سکتا ہے۔

Related Posts