دُنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن، عورت مارچ اور میرا جسم میری مرضی کے نعرے

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

دُنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن، عورت مارچ اور میرا جسم میری مرضی کے نعرے
دُنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن، عورت مارچ اور میرا جسم میری مرضی کے نعرے

وطنِ عزیز پاکستان سمیت دُنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے جس کا مقصد مملکتِ خداداد سمیت ہر معاشرے میں خواتین کے استحصال کو روکنا اور حقوق کی فراہمی کیلئے شعور اجاگر کرنا ہے۔

ہر سال خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر مختلف ریلیاں منعقد ہوتی ہیں اور پاکستان میں منعقد کیا جانے والا عورت مارچ بھی ایک الگ شہرت رکھتا ہے جس کے دوران میرا جسم، میری مرضی کے نعرے لگائے گئے، آئیے خواتین کے عالمی دن اور عورت مارچ کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتے ہیں۔

خواتین کا عالمی دن، تعطیل اور تقریبات

دنیا بھر میں خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر مختلف تقاریب، بحث مباحثے، سیمینارز اور احتجاجی ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں بھی مختلف این جی اوز خواتین کو درپیش مسائل اور چیلنجز اجاگر کرنے کیلئے واک، سیمینارز اور بحث مباحثوں کا اہتمام کرتی ہیں۔

مختلف ممالک جن میں چین، روس، ویتنام اور بلغاریہ شامل ہیں، وہاں خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر عام تعطیل ہوتی ہے۔ سیاسی رہنما خواتین کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے مختلف بیانات جاری کرتے ہیں۔ 

عالمی یومِ خواتین اور تاریخِ انسانی

آج سے 113 سال قبل یعنی 1908ء میں 15 ہزار محنت کش خواتین نے امریکا کے اہم شہر نیویارک میں تنخواہوں میں اضافے، ووٹ کا حق دینے اور کام کے طویل، صبر آزما اور ناقابلِ برداشت اوقاتِ کار کے خلاف بھرپور مظاہرہ کیا۔

اگلے برس 1909ء میں امریکی سوشلست پارٹی نے عورتوں کا قومی دن 28 فروری کے روز منایا۔ نیو یارک کی کپڑا بنانے والی فیکٹری میں خواتین سے مسلسل 10 گھنٹے کام لیا جاتا تھا۔

خواتین نے اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھائی تو پولیس نے ان پر وحشیانہ تشدد کیا اور مظاہرہ کرنے والی خواتین کو گھوڑوں سے باندھ کر سڑکوں پر گھسیٹا بھی گیا لیکن یہ بد ترین ظلم و جبر خواتین کو حقوق کی جدوجہد جاری رکھنے سے نہ روک سکا۔

سن 1910ء میں کوپن ہیگن میں خواتین کی پہلی بین الاقوامی کانفرنس میں 17 سے زائد ممالک کی تقریباً 100 خواتین شریک ہوئیں۔ کانفرنس میں فیصلہ ہوا کہ خواتین پر ظلم و استحصال کا عالمی دن منایا جائے۔ اقوامِ متحدہ نے 1956ء میں 8 مارچ کو عالمی یومِ خواتین کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔ 

عورت مارچ اور میرا جسم میری مرضی کے نعرے 

یہ کہنا بد دیانتی ہوگی کہ پاکستان میں خواتین کو تمام حقوق حاصل ہیں اور وہ مردوں کے شانہ بشانہ ہر شعبۂ زندگی میں کسی بھی قسم کے مسائل کے بغیر کام کرسکتی ہیں، اپنی مرضی سے اٹھ بیٹھ سکتی ہیں یا زندگی کے اہم فیصلوں میں شریک ہوسکتی ہیں۔

بے شمار ایسے مسائل ہیں جن میں خواتین کو آج بھی مردوں کے برابر حقوق حاصل نہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خواتین کے حقوق کیلئے نکالے گئے عورت مارچ میں میرا جسم میری مرضی سمیت مختلف دیگر نعرے لگائے گئے۔

مذکورہ نعروں کے ساتھ ساتھ بعض متنازعہ پوسٹرز بھی عورت مارچ کا حصہ بنے جو آج سوشل میڈیا پر وائرل ہیں، تاہم کچھ ایسے مطالبات بھی تھے جنہیں سنجیدگی سے لیا جانا ضروری تھا۔

گزشتہ برس اداکارہ جویریہ سعود نے کہا کہ عورت مارچ میں شریک ہونے والی بیشتر خواتین کے ساتھ وہ مسائل نہیں جن کیلئے وہ جمع ہوتی ہیں۔ جو نعرے لگائے گئے، اس سے اختلاف رکھتی ہوں۔ میں ان نعروں کے متعلق اپنی بیٹی سے بات بھی نہیں کرسکتی۔ عورتوں کے حقوق کیلئے تحریک ایک الگ معاملہ ہے۔ 

سنجیدہ مطالبات 

ایسا بالکل نہیں کہ عورت مارچ یعنی عالمی یومِ خواتین کے موقعے پر احتجاجی مظاہروں میں کوئی سنجیدہ مطالبات نہیں کیے گئے۔ سوشل میڈیا پر متنازعہ پوسٹرز پر تو خواتین کو خوب لعن طعن کی گئی تاہم سنجیدہ مطالبات پر توجہ نہ دی جاسکی۔

مثال کے طور پر خواتین کے حقوق کے حامی ایک مرد نے اپنے بینر میں سوال کیا تھا کہ بیٹیاں کب تک تعلیم سے محروم رہیں گی؟ ایک خاتون نے اپنے بینر کے ذریعے ایک ان پڑھ خاتون کی مثال بیان کرتے ہوئے کہا کہ میرا نام آسیہ ہے اور میں کبھی اسکول نہیں گئی۔

اسی طرح تعلیم کے ساتھ ساتھ جہیز کے مطالبے اور خواتین کے دیگر حقوق کے مطالبات بھی عورت مارچ کے دوران کیے گئے جو وائرل نہیں ہوسکے کیونکہ من حیث القوم متنازعہ موضوعات پر گفتگو ہمارا وطیرہ بنتا جارہا ہے۔

 موٹر سائیکل پر سوار ایک خاتون نے بینر اٹھا رکھا تھا جس پر یہ مطالبہ تحریر تھا کہ خواتین کو امن، صحت، تعلیم، روزگار اور صاف پانی دیا جائے۔ ایک بچی نے اپنے بینر میں کہا کہ میں جنسی زیادتی کا شکار خواتین کیلئے واک پر نکلی ہوں اور ان کی وہ کہانیاں دنیا کو سنانا چاہتی ہوں جو آج تک نہیں سنی گئیں۔

دینِ اسلام اور شریعت پر سنگین الزام 

بعض لوگ جنسی زیادتی کے واقعات پر گفتگو کو بھی جرم بلکہ گناہِ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ اسلامی شریعت کو من و عن تسلیم کیا جائے تو جنسی زیادتی کا ذکر کرنے کو کبھی جرم نہیں کہا گیا بلکہ جرم تو یہ ہے کہ کسی خاتون یا مرد کے ساتھ جنسی زیادتی ہو اور وہ اس کا ذکر تک نہ کرسکے۔ یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

ایک خاتون رسول اللہ ﷺ کے پاس فریاد لے کر آئی کہ میرے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم نے جنسی زیادتی کا ذکر کیوں کیا؟ بلکہ مجرم کو تلاش کرکے اسے سزا دینے پر توجہ مرکوز کی گئی۔ 

شریعتِ اسلامی اور دین پر سنگین الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ اس نے خواتین کے حقوق کو محدود کیا۔ خواتین کھل کر اپنے مسائل بیان ہی نہیں کرسکتیں، حالانکہ امہات المؤمنین اور صحابیات کی روایات سے ثابت ہے کہ نماز اور غسل کے فرائض سے لے کر خاوند کی بے راہروی تک خواتین ہر مسئلے پر کھل کر گفتگو اور بحث کرسکتی تھیں۔ اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔

خیبر پختونخوا اسمبلی کی قرارداد، عورت مارچ اور عدالت

کے پی کے اسمبلی نے 21 مارچ 2019ء کے روز عورت مارچ کے خلاف ایک مذمتی قرارداد منظور کی۔ قرارداد حکومت اور اپوزیشن ارکان نے مشترکہ طور پر پیش کی جسے کثرتِ رائے سے منظور کیا گیا۔

قرارداد میں عورت مارچ کے دوران لگائے گئے نعروں کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ کچھ خفیہ قوتیں ملک کے خاندانی نظام کو پاش پاش کرنے کی کوشش میں ملوث ہیں۔ کچھ خواتین کے عورت مارچ کے دوران نعرے قابلِ مذمت ہیں، خواتین مارچ کے نام پر فحاشی کی مذمت کرتے ہیں۔

مارچ 2020ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے عورت مارچ سے متعلق موصول کی گئی دو درخواستیں میرٹ پر نہ ہونے کے باعث خارج کردیں۔ 2 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ بھی جاری کیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سب سے پہلے ایک خاتون نے اسلام قبول کیا۔ خواتین اسلام میں دئیے گئے حقوق کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ کیا کسی نے بچیوں کو زندہ دفن کرنے کی روایت ختم کرائی؟

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ حضورِ اکرم ﷺ نے بچیوں کا زندہ دفن کیا جانا ختم کرا دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آج بھی ہمارے معاشرے میں جب لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اسے نیک شگون نہیں سمجھا جاتا۔ 

حقوقِ نسواں اور معاشرہ 

ایک رپورٹ کے مطابق خواتین کا اپنا گھر ہی ان کیلئے سب سے غیر محفوظ قرار دیا گیا ہے۔ سن 2019ء میں 50 ہزار خواتین اپنے ہی گھر میں اپنوں کے ہاتھوں تشدد کا شکار اور قتل ہوگئیں۔ قاتل یا معاون ان کے اپنے خاوند، والدین، بھائی یا اہلِ خانہ تھے۔

کورونا وائرس کے باعث مرد حضرات گھروں پر رہنے لگے تو سن 2020ء کے ابتدائی 8 ماہ کے دوران خواتین پر گھریلو تشدد غیر معمولی حد تک بڑھ گیا۔ اقوامِ متحدہ کا کہنا تھا کہ خواتین کیلئے جائے فرار ہی نہیں کیونکہ وہ پرتشدد شوہر یا پارٹنرز کے ساتھ گھروں میں قید ہوچکی ہیں۔

اگر برطانیہ کی بات کی جائے تو گھریلو تشدد کے باعث ہاٹ لائن پر امداد مانگنے کی شرح میں 120 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ امریکا میں 20 فیصد زیادہ شکایات کا سامنا ہوا، تاہم یہ ترقی یافتہ ممالک ہیں، پاکستان میں صورتحال اس سے کہیں ابتر ہے۔

قبل ازیں سن 2017ء سے 18ء کے درمیان کیے گئے ایک سروے میں بتایا گیا کہ پاکستان میں تشدد کا شکار 56 فیصد خواتین جو 15 سے 49 سالہ اور شادی شدہ ہیں، نہ اس تشدد کے بارے میں کسی کو کچھ بتاتی ہیں، نہ مدد حاصل کرتی ہیں۔

کچھ متنازعہ نعرے کیا لگ گئے، عورت مارچ کو مکمل طور پر ایک مغربی تحریک بلکہ دشمن ممالک کا ایجنڈا سمجھ لیا گیا۔ برائی اور فحاشی کی مخالفت ضرور کی جائے لیکن خواتین کے حقوق کا تحفظ ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے یہی آج کے دن کا پیغام ہے۔

Related Posts