پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے بلوچستان کے پسماندہ جنوبی اضلاع کیلئے 600ارب کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا ہے، حکومت کا کہنا ہے کہ وزیراعظم پیکیج بلوچستان کے عوام کیلئے خوشحالی کی نوید ثابت ہوگا۔
اگر ہم بلوچستان پر نظر ڈالیں تو یہ رقبہ کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور قدرت نے صوبہ بلوچستان کو لاتعداد معدنیات و قدرتی وسائل سے نوازا ہے لیکن اپنی جغرافیائی اہمیت کے باوجود یہ علاقہ آج مسائل کا گڑھ بن چکا ہے۔
ماضی میں کبھی آغاز حقوق بلوچستان کے نام سے توکبھی کسی پیکیج کے نام سے لوگوں کو بیوقوف بنایا جاتا رہا ہے، کسی بھی حکومت نے بلوچستان کے عوام کا احساس محروم ختم کرنے کیلئے عملی اقدامات نہیں کئے بلکہ صرف دعوؤں اور نعروں سے ہی بلوچستان کے عوام کو دلاسہ دیتے رہے جس کی وجہ سے آج بھی بلوچستان کے عوام اپنی حالت زار بدلنے کیلئے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔
بلوچستان کی اہمیت
رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کا رقبہ 347190 مربع کلو میٹر ہے جو پاکستان کے کل رقبے کا43اعشاریہ 6فیصد حصہ بنتا ہے جبکہ اس کی آبادی 1998ءکی مردم شماری کے مطابق 65لاکھ65ہزار885نفوس پر مشتمل تھی جبکہ 2017 ء میں بلوچستان کی آبادی ایک کروڑ 23 لاکھ 40 ہزار سے زائد تھی۔
قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان محل وقوع میں اہم ترین صوبہ ہے مگر افسوس حالیہ یواین عالمی ادارے کے سروے کے مطابق بلوچستان دنیا کا سب سے پسماندہ اور غریب ترین علاقہ ہے ۔اس کے شمال میں افغانستان، صوبہ خیبر پختونخوا، جنوب میں بحیرہ عرب، مشرق میں سندھ اور پنجاب جبکہ مغرب میں ایران واقع ہے۔ اس کی 832کلو میٹر سرحد ایران اور 1120کلو میٹر طویل سرحد افغانستان کے ساتھ ملی ہوئی ہے جبکہ 760کلو میٹر طویل ساحلی پٹی بھی بلوچستان میں ہے۔
بلوچستان کے بنیادی مسائل
بلوچستان میں کئی حکومتوں آئیں اور چلی گئیں چہرے بدلتے رہے ہیں اگر کچھ نہیں بدلا تو وہ بلوچستان کے حالات تھے، آج بلوچستان سے نکلنے والی گیس سے پورا ملک مستفید ہوتا ہے لیکن بلوچستان کے باسی لکڑیاں جلاکر گزارا کرتے ہیں۔
سونا، آئرن، تیل کوئلہ اگلنے والی زمین کے رہنے والوں کو آج بھی رسیوں کی مدد سے کنوؤں سے پانی نکالنا پڑتا ہے ،یہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے، صحت کی سہولیات ہیں نہ صفائی کا کوئی خاطر خواہ نظام ہے، سی پیک کا بنیادی جز ہونے کے باوجود روزگار کے مواقع انتہائی مسدود ہیں۔
بلوچستان کا شمار پسماندہ ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔یہاں بدامنی نے پنجے گاڑھ رکھے ہیں، بنیادی انفراااسٹرکچر تباہ حال ہے ، عوام بجلی اور گیس کی سہولیات سے بھی محرم ہیں اور پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت میں آغاز حقوق بلوچستان پیکیج کے علاوہ کئی حکومتوں نے بلوچستان کیلئے پیکیجزکا اعلان تو کیا لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوپایا جس کی وجہ سے بلوچستان کے حالات بدسے بدتر ہوچکے ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت کا پیکیج
وفاقی حکومت کی جانب سےجنوبی بلوچستان کی ترقی کیلئے 3 سال میں 6سو ارب روپے خرچ کئے جائینگے، پیکیج کے تحت 9اضلاع کے 57فیصد گھروں کو بجلی فراہم کی جائیگی، 3 لاکھ 20ہزار گھروں کا اضافہ ہو گا جس میں سے 2لاکھ گھروں میں قابل ترجدید شمسی توانائی کے ذریعے بجلی پہنچائے جائے گی۔
گیس کی فراہمی کے لیے ڈسٹری بیوشن کا جدید نظام بنایا جائیگا،16 نئے ڈیمز بنیں گے جس سے ایک لاکھ 50ہزار ایکڑ اراضی زیر کاشت آئیگی اور روزگار کے مواقع پیدا ہونگے۔وفاقی وزارت کے پروگرام کے ذریعے 6لاکھ 40ہزار بچوں کو ریموٹ لرننگ فراہم کی جائے گی۔
بچوں کو تعلیمی وظیفہ بھی دیا جائے گا۔200 سے زائد صحت کے بنیادی مراکز کو اپ گریڈ کیا جائیگا اورجدید آلات نصب کیے جائیں گے، سڑکوں کی تعمیر و مرمت کیلئے بھی فنڈز رکھے گئے ہیں۔
حکومت کی ذمہ داری
کسی بھی علاقے کی سیکورٹی وہاں کی ترقی سے مشروط ہوتی ہے، بنیادی سہولیات اور وسائل کی عدم فراہمی سے نفرتیں جنم لیتی ہیں جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ماضی کی طرح صرف اعلانات پر اکفتا کرنے کے بجائے حقیقی طور پر بلوچستان کی ترقی کیلئے اقدامات کئے جائیں۔
بلوچستان کی ترقی کیلئے بنائے گئے منصوبوں پر صدق دل سے عملدرآمد بھی کیا جائے تو کیونکہ عوام کو تعلیم، صحت، پانی ، بجلی، گیس اور دیگر سہولیات میسر آئینگی تو خوشحالی اور امن و امان میں بہتری آئیگی اور روزگار کی فراہمی سے نوجوان بری راہوں پر بھٹکنے کے بجائے ملک کی تعمیر و ترقی اور اپنے خاندانوں کی خوشحالی کیلئے وقت صرف کرینگے۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت نیک نیتی سے اس ترقیاتی پیکیج پر عملدرآمد یقینی بنائے تاکہ بلوچستان کے عوام مایوسیوں کے اندھیروں سے نکل کر بہتر زندگی گزار سکیں جو ان کا حق ہے اور پاکستان کی ترقی کیلئے ناگزیر ہے۔