دھرنا سیاست ملک کو کس طرف لیکر جائے گی ؟؟؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

حکومت نے اپوزیشن کو مارچ کی مشروط اجازت دیدی ہے، وزیراعظم کی زیرصدارت اپوزیشن سے مذاکرات کیلئے قائم حکومتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں دھرنے اور مارچ سے متعلق امور پر تفصیلی غور کیا گیا،وزیردفاع پرویزخٹک کی سربراہی میں کمیٹی نے اپوزیشن جماعتوں سے رابطوں پروزیراعظم کو اعتماد میں لیا اور مذاکرات میں اب تک کی پیش رفت سے آگاہ کیا۔

وزیراعظم نے مذاکراتی کمیٹی کواپوزیشن سے مذاکرات کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔حکومت نے آزادی مارچ کی مشروط اجازت دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے آزادی مارچ کی اجازت سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد سے مشروط کردی ہے۔ مظاہرین کو اس وقت تک احتجاج کی اجازت ہوگی جب تک وہ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ماضی کے فیصلوں کی روشنی میں شہریوں کی روز مرہ زندگی متاثر نہ ہو۔

دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کی جانب سے عہدے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ یکسر مسترد کردیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے احتجاج کا ایک مخصوص ایجنڈہ ہے اور مولانا کے دھرنے پر بھارت میں خوشیاں منائی جارہی ہیں۔ان کہنا تھا کہ میں کسی بھی قیمت پر استعفیٰ نہیں دوں گا اور اس طرح چھوڑ کر نہیں جاؤں گا، ملک کو مشکلات سے نکال کر دکھاؤں گا۔

تاہم مولا نا فضل الرحمٰن نے حکومت سے مذاکرات کے لئے شرط عائد کی ہے کہ پہلے وزیر اعظم عمران خان کااستعفیٰ لائیں ،پھر مذاکرات ہوں گے،مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر اپوزیشن جماعتیں دھرنا کرنا چاہتی ہیں، لانگ مارچ یا ملین مارچ کرنا چاہتی ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے،احتجاج ووٹرز کا جمہوری حق ہے۔ احتجاج حکومتوں کی عدم توجہ اور بنیادی مسائل کے حل نہ ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں،انہی مسائل کے پردے میں سیاست بھی ہوتی ہے اور احتجاجی تحریکیں بھی چلائی جاتی ہیں۔ انہی تحریکوں میں تحریروں والے بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ انہی تحاریک سے معاملات بگڑتے اور بنتے ہیں۔

مولانا سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے میدان میں آئے ہیں تو یہ ان کا سیاسی و جمہوری حق ہے ان کے ساتھیوں کا سڑکوں پر آنا بھی ویسے ہی عین جمہوری ہے جیسے دیگر جماعتوں کے ووٹرز اور سیاسی قائدین کے ماننے والوں کا ہوتا ہے۔ یہ بحث الگ ہے کہ مولانا مذہب کارڈ استعمال کر رہے ہیں یا مدارس کے طلباء کا سہارا لے رہے ہیں۔ یہاں بات صرف جمہوریت میں احتجاج کی ہو رہی ہے تو جمہوریت شہریوں کو احتجاج کا حق دیتی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عام شہری سڑکوں پر کیوں نکل رہے ہیں، کیا وہ حکمرانوں سے نفرت کے اظہار کیلئے سڑکوں پر آ رہے یا انہیں ورغلایا جا رہا ہے، کیا وہ استعمال ہو رہے ہیں یا انہیں زبردستی لایا جا رہا ہے۔ دیکھا جائے تو مولانا فضل الرحمان کے ماننے والوں کے لیے سڑکوں پر آنے کے لیے ان کا حکم ہی کافی ہے لیکن مولانا کے ساتھ ملنے والوں کے لیے حالات خود پی ٹی آئی حکومت نے پیدا کیے ہیں۔

آج پاکستان کے عوام اگرحکومت کے خلاف سڑکوں پر آتے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ حکومت کی اپنی کارکردگی ہو گی،جب عام آدمی کے مسائل کم نہ ہوں، اس کے لیے زندگی آسان نہ ہو، اشیاء خوردونوش اس کی پہنچ سے باہر ہو جائیں، صحت کی سہولیات نہ ہوں، تعلیم عام انسان کی پہنچ سے باہر ہوجائے تو مہنگائی کی چکی میں پسنے والا عام آدمی سوائے احتجاج کے اور کیا کر سکتا ہے۔

پی ٹی آئی حکومت عوام کی زندگی آسان بنانے میں اب تک بری طرح ناکام رہی ہے،ملک میں روزبروز بڑھتی مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے، کاروبار کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں اور ہر گذرتے دن کے ساتھ لوگوں کی قوت خرید کم ہوتی جا رہی ہے،ان حالات میں عام آدمی کے پاس احتجاج کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا۔ موجودہ حکومت خوش قسمت ہے کہ ابھی تک اسے سڑکوں پر عوامی غیض و غضب کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اپنے مسائل میں گھری اپوزیشن بھی مختلف معاملات میں حکومت کی غلطیوں کو عوامی سطح پر موثر انداز میں اٹھانے میں ناکام رہی ہے ایسے میں حکومت کے لیے بہتر تھا کہ وہ بکھری اپوزیشن کو طاقت دینے کے بجائے عوام دوست اقدامات سے ان کی زندگی آسان کرتی اور دہائیوں سے ملکی سیاست پر قابض دو بڑی سیاسی جماعتوں کا راستہ روکتی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا اور آج تحریک انصاف کی حکومت سے اس کا ووٹر بھی مایوس نظر آتا ہے۔

اپوزیشن کے احتجاج کو ابتدائی خطرہ سمجھ کر گورننس بہتر کرتے ہوئے حالات کو قابو میں کیا جا سکتا ہے لیکن کیا حکومت میں شامل اہم شخصیات اس کی اہلیت رکھتی ہیں، مکمل طاقت اور اختیار کے باوجود توقعات پر پورا نہ اترنے والے کیا احتجاجی دباؤ میں اچھا کھیلنے میں کامیاب ہو جائیں گے اس کا فیصلہ وقت نے کرنا ہے ۔

ملک میں انتشار کی کیفیت پیدا کرکے مسائل میں اضافے کے بجائے تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر قومی اتفاق رائے پیدا کریں اور اہم مسائل پر متحد ہو کر آگے بڑھیں ،سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران سوچیں کہ انہوں نے ملک کو کس طرف لے کر جانا ہے۔

Related Posts