کورونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری مگر صحافی پیچھے نہیں ہٹے

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

دُنیا  بھر میں کورونا وائرس نے انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ وائرس کے باعث اب تک لاکھوں افراد متاثر ہوئے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں انسان اپنی زندگی کی بازی ہار گئے۔ 

وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن اور اس لاک ڈاؤن سے غربت  کی لکیر سےنیچے زندگی گزارنے والے لاکھوں پاکستانیوں پر قیامت ٹوٹ گئی۔

لاک ڈاؤن اور پریشانیاں 

جیسے جیسے  لاک ڈاؤن کو وقت گزرتا جائے گا، ویسے ویسےپریشانیاں بڑھتی جائیں گی۔ کورونا وائرس چین کے شہر وہان سے شروع ہوا، کورونا نے جب چین میں قدم جمایا تو اس کی اطلاع دنیا تک پہنچانے میں چین کے ایک صحافی نے ہی کردار ادا کیا۔

آج ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر صحافی یہ اطلاع میڈیا کے ذریعے عوام تک نہ پہنچاتا تو دُنیا بھر میں کورونا وائرس مزید تیزی سے پھیل سکتا تھا۔ کورونا رپورٹ ہونے کے بعد دنیا کے دیگر ممالک نے وائرس پر سوچ بچار شروع کی۔

شعبۂ صحافت کی اہمیت 

سوچ بچار میں کچھ تاخیر ضرور ہوئی مگر اس پر تحقیق کا آغاز ایک مثبت عمل تھا۔ چین کی صورتحال اور لاک ڈاؤن کے مثبت نتائج سمیت ہر خبر دُنیا تک صحافی ہی پہنچاتے رہے ہیں۔

میں یہ بات کہنے میں کوئی آر محسوس نہیں کرتا کہ اگر صحافی یہ کردار ادا نہ کریں تو دُنیا ان حالات کو جاننے ، سننے اور دیکھنے کے معاملے میں اندھی اور بہری ثابت ہوگی۔ ذرائع ابلاغ کے بغیر دنیا کے بڑے بڑے سیاستدان، سائنسدان ، تجزیہ کار اور  کالم نگار  بے کار ہیں۔

 جب کوئی رپورٹ میڈیا کے ذریعے ان تک پہنچتی ہے تب ہی اس پر ردِ عمل دیا جاسکتا ہے۔ کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے ذرائع ہوں ، اس کے متاثرین کی تعداد ہو، اس سے ہلاکتوں کی تعداد ہو، کون سے ممالک اس سے نمٹنے کے لیے کیا کر رہے ہیں،کیا کیا جدید طریقہ کار اپنائے جا رہے ہیں، کس طرح اس سے بچا جا سکتا ہے ، اور دنیا بھر میں لاک ڈاون پر کس طرح عمل ہو رہا ہے یہ سب صحافیوں کی ہی کار گزاری ہے جسے دنیا گھر بیٹھے جان لیتی ہے۔

وائرس کے خلاف ہراول دستہ 

صحافی خصوصاََ رپورٹرز ،کیمرہ مین اور فوٹو گرافر وہ طبقہ ہے جو اگلے محاذ تک پہنچتا ہے۔کہیں فائرنگ ہو رہی ہو ، کہیں بم دھماکہ ہو ،آتشزدگی کا مسئلہ ہو ،دہشت گردوں کا حملہ ہو ، ہنگامہ آرائی ہو، پر تشدد واقعات ہوں، رپورٹرز، کیمرہ مین اور فوٹو گرافرز ہراول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ 

یہ کردار ادا کرنے والے صحافیوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی جان خطرے میں ہے  مگر اس کے باوجود وہ  اپنا فرض نبھانے کے لیے خطرے کے سامنے کھڑے ہو کر دنیا کو صورتحال سے آگاہ کرتے ہیں۔

کورونا وائرس کے حملے میں بھی صحافیوں نے ہی کردار ادا کیا تو دنیا نے جانا کہ کورونا وائرس کیا ہے، کیسے حملہ آور ہوتا ہے ،کہا ں کہاں سے انسان میں منتقل ہوتا ہے، کس سطح پر کتنی دیر موجود رہتا ہے اور  کتنے دن میں متاثرہ شخص میں ظاہر ہوتا ہے اورظاہر ہونے کے بعد کیا کیا علامات ہوتی ہیں۔

صحافیوں کی بدولت دنیا یہ جان پائی کہ کس طرح وائرس  سے بچا جا سکتا ہے، متاثرہ شخص کس طرح اس بیماری سے لڑ سکتا ہے،ان میں تحقیقات میڈیکل سے وابستہ ماہرین ہی کرتے ہیں مگر اس کی اطلاع خبروں کی صورت میں رپورٹرز ہی دنیا تک پہنچانے کا فرض ادا کر رہے ہوتے ہیں۔

پاکستان میں صحافیوں کی مشکلات 

پاکستان میں اپنے اس فرض کی ادائیگی میں صحافیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بڑا مسئلہ لاک ڈاؤن کے دوران سفر کرنا ہوتا ہے۔ صحافی کی گاڑی کو راستہ روک کر فورسز کے اہلکار واپس جانے کا کہتے ہیں جبکہ وہ لاک ڈاؤن کی پابندی سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔

 جب پابندی لگائی جاتی ہے تو فورسز کے اہلکاروں تک یہ پیغام پہنچانے کی ذمہ داری  پولیس ، رینجرز اور فوج کے اعلیٰ حکام کی ہوتی ہے کہ وہ صحافیوں کو نہ روکیں اور شناخت دکھانے پر انہیں جانے دیا جائے مگر ایسا نہیں ہوا اور لاک ڈاؤن  کے ابتدائی 4دن تک صحافیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

دوسری طرف صحافیوں کو تحفظ کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے جبکہ ریاست کی جانب سے معاشرے میں  پیشہ ور صحافیوں کو تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا۔ کئی صحافی حقائق بتانے کی پاداش میں کسی مافیا یا وڈیرا سسٹم کی بھینٹ چڑھا دیے جاتے ہیں۔

رپورٹنگ کرنے والے صحافی مشکلات کا شکار ہیں۔انہیں مناسب سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی ذمہ  داری ہوتی ہے۔ یہ بین الاقوامی قانون بھی ہے۔اسی طرح کورونا وائرس سے جہاں ڈاکٹرز ،اور پیرا میڈیکل اسٹاف صفِ اوّل میں لڑتے نظر آرہے ہیں اسی طرح دوسری صف میں صحافی موجود ہیں۔

وائرس کا شکار صحافی 

صحافی  پل پل کی خبریں دنیا تک پہنچانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں، اس کوشش میں دنیا بھر کے درجنوں صحافی کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ان میں سے ایک خاتون صحافی  سی بی ایس نیوز کی پروڈیوسرماریہ کورونا وائرس کا شکار ہو کر ہلاک ہو چکی ہیں۔

پاکستان میں اب تک 3صحافیوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔اس بات کی تصدیق چیئر مین ( اے پی این ای سی)غضنفر صدیقی بھی کر چکے ہیں کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے 2 اور  کراچی کے 1 صحافی کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔

ایسی صورتحال میں صحافیوں کو وہ مقام ملتا نظر نہیں آرہا جو ان کا حق ہے۔ نہ صحافیوں کو میڈیکل کٹ فراہم کی جا رہی ہے نہ ہی سوشل میڈیا پر مستقل کام کرنے والے ان پیشہ ور صحافیوں کی خدمات کا اعتراف کرتے نظر آرہے ہیں نہ ہی سیاستدان، اور اینکر پرسن صحافیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

 حکومت کی جانب سے بھی پیشہ ور صحافی جن میں رپورٹرز ، کیمرہ مین او رفوٹو گرافرز شامل ہیں ان کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا جاتا۔ اس مشکل وقت میں اگر حوصلہ افزائی نہ کی گئی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ مذکورہ طبقہ کورونا سے لڑنے کے بجائے گھروں پر بیٹھ جائے۔

اگر ایسا ہوا تو دنیا بھر کی صورتحال تو ملک کے لوگ جان لیں گے مگر پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اس کا انہیں قطعی علم نہیں ہو سکے گا، کیوں کہ شہروں میں لاک ڈاؤن کی کیا صورتحال ہے ، اس کے اثرات کس پر کس طرح اور کس قدر منفی پڑ رہے ہیں یہ سب جاننا ناممکن ہو جائے گا۔

خراجِ تحسین کی ضرورت

یہ سیاستدانوں ، حکمرانوں، اینکرز ، اور سوشل میڈیا کے متحرک افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ مذکورہ صحافیوں جن میں رپورٹرز ، کیمرہ مین، اور فوٹو گرافرز شامل ہیں ان کی حوصلہ افزائی کریں اور جس طرح ایک مثبت اقدام میڈیکل کے شعبے سے وابستہ ڈاکٹرز ، پیرا میڈیکل اسٹاف کے لیے اٹھایا گیا، صحافیوں کے لیے بھی اٹھایا جائے۔ 

ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف اور نرسز کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے سفید پرچم لہرائے گئے، اسی طرح  صحافیوں کے لیے بھی سبز پرچم لہرا کر انہیں خراج تحسین پیش کیا جائے۔ ملک کے سیاستدان، میڈیا پرسنز یا عوام الناس صحافیوں کے لیے بھی کچھ وقت نکالیں۔ 

صحافیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا ایک دن مقرر کیا جائے جس کے دوران پاکستان سمیت دنیا بھر کے صحافیوں کو سبز پرچم لہرا کر خراچ تحسین پیش کیا جائے تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ مزید بہتر انداز میں کام جاری رکھ سکیں۔

Related Posts