اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ملک میں خواتین کو بااختیار بنانے کے بارے میں لوگ کتنی باتیں کرتے ہیں، ہماری ڈرامہ انڈسٹری میں آج بھی ایسے کردار دکھائے جاتے ہیں جو کہ خواتین پر ظلم وزیادتی کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔
یہ معاشرے کی ایک ہولناک حقیقت ہے کہ پاکستانی ہدایت کار اور تخلیق کار اس بات پر بالکل توجہ نہیں دیتے کہ ایسے کردار دکھانے سے وہ معاشرے پر کتنا بُرااثر ڈال رہے ہیں۔
کیسی تیری خودغرضی
حال ہی میں نعمان اعجاز، عتیقہ اوڈھو، اور دانش تیمور کے ڈرامے جیسی تیری خودغرضی کو اسی طرح کے موضوع پر ڈرامہ بنانے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
کیسی تیری خود غرضی کی قسط میں جو مناظر دکھائے گئے اُس میں دانش تیمور کا کردار بہت ہی الگ تھا، اُن کے کردار کو مغرور اور بہت ہی جاہل دکھایا گیا جو کہ خاتون کردار کیساتھ بدتمیزی کرکے بہت زیادہ خوشی محسوس کرتا ہے۔
ڈرامے کے مناظر کے دوران خاتون جب بھی فون کال کے دوران دانش تیمور کو اُن کے نام سے مخاطب کرتی ہے تو وہ اس سے بڑا لطف اندوز ہوتے ہیں جو کہ کافی مضحکہ انگیز لگتا ہے۔
مذمت
ڈرامے کے اس سین کے بعد بہت سے ناظرین نے اس کا مذاق اُڑایا اور اکثریت نے یہی مطالبہ کیا کہ پیمرا اس ڈرامے کا ایک مرتبہ پھر سے جائزہ لے کیونکہ اس قسم کے ڈرامے کو پیمرا ٹی وی پر دکھانے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے۔
بعدازاں کچھ ناظرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ اب پاکستانی ڈراموں میں ایسے ہی کردار دکھائے جاتے ہیں جو کہ خواتین پر تشدد کرتے ہیں اور اُن سے محبت بھی، ناظرین کا کہنا ہے کہ وہ ایک ہی طرز کے ڈرامے دیکھ دیکھ کر اُکتا چکے ہیں۔
ایک ہی طرح کی کہانی
آج کل جس قسم کے پاکستانی ڈرامے دکھائے جاتے ہیں، اُن میں یہی دکھایا جاتا ہے کہ ایک بہت ہی امیر لڑکا ہوتا ہے، جو کہ انتہائی بگڑا ہوا ہوتا ہے، اُس کو ایک ایسی لڑکی سے محبت ہوجاتی ہے جو کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے، ڈرامے میں جو بگڑا ہوارئیس زادہ ہوتا ہے وہ اس لڑکی کا پیچھا کرتا ہے، اُس کو تنگ کرتا ہے، پھر اُس لڑکی کو اغواء کرکے اس کے ساتھ زبردستی یا تو زیادتی کرتا ہے یا پھر اُس سے نکاح کرلیتا ہے۔
افسوس کیساتھ یہ سب کچھ دکھانے کے بعد ڈرامے کے آخر میں وہی لڑکا مظلوم بن جاتاہے اور لڑکی اُسے معاف کردیتی ہے۔
ملتی جلتی کہانیاں
ہر چینل پر اسی طرز کے ڈرامے دکھائے جاتے ہیں جن میں لڑکا کسی لڑکی کے پیچھے پڑجاتا ہے اور وہ پھر اُس پر تشدد کرتا ہے، خاص طور پر فیروز خان کے تو تمام ڈرامے ہی اسی طرح کے ہوتے ہیں اور وہ انڈسٹری میں مشہور بھی انہی کرداروں کے حوالے سے ہوگئے ہیں۔
اداکاروں کا کردار
اداکاری ایک پیشہ ہے اور درحقیقت یہ اداکار کا کام نہیں ہے کہ وہ ہمیں تعلیم دے جیسا کہ وہ ہماری تفریح کرتا ہے۔ لیکن ایک اداکار پھر بھی ایسے کرداروں کو پیش کرنے سے گریز کر سکتا ہے خاص طور پر شوبز انڈسٹری کا نمایاں چہرہ ہونے کے ناطے کسی کردار کا انتخاب کرنے سے پہلے دو بار غور ضرور کرنا چاہیے۔
خواتین پر اثرات
اس طرح کے کردار ہماری ڈرامہ انڈسٹری اور معاشرے کیلئے بالکل ٹھیک نہیں کہ جس سے معاشرے کو پیغام ملے کہ ایک مرد عورت پر جتنا چاہے ظلم کرلے عورت خاموشی سے اُسے سہتی رہے اور آخر میں وہ اُس مرد کو معاف بھی کردے۔
مزید برآں، پاکستان میں خواتین کے خلاف بدسلوکی اور تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے کیونکہ مردوں کو خواتین کو اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہونے اور ان کے بارے میں آواز اٹھانے کے لیے کافی خود مختار ہوتے دیکھ کر عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ڈرامے کے تخلیق کار سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ڈرامہ بنانے والے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں وہ جب یہ دیکھ لیتے ہیں کہ اس طرح کے موضوع پر بنائے گئے ڈرامے کو زیادہ شہرت مل رہی ہے تو پھر سب ہی اسی طرح کے ڈرامے بنانے شروع کردیتے ہیں، یہ سوچے بغیر کہ اُن کے بنائے گئے ڈرامے سے معاشرے کو کتنا منفی پیغام جائے گا۔