شہر قائد کراچی میں دو مرتبہ التوا کے بعد تیسری مرتبہ آخر کار بلدیاتی انتخابات سندھ ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کے حکم کے مطابق 15 جنوری کو ہو تو گئے ہیں، مگر بلدیاتی اداروں کا قیام جو اس ساری محنت کا اصل مقصد تھا، تا حال عمل میں نہیں آسکا ہے۔
حیران کن طور پر دو مرتبہ الیکشن ملتوی ہونے کے باوجود ٹرن آؤٹ کم رہا اور پھر ہمیشہ کی طرح 48 گھنٹے گزر جانے بعد بھی نجی چینلز پر غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج موصول ہوتے رہے جس میں کبھی ایک سیاسی جماعت کا پلڑا بھاری ہوتا تو کبھی دوسری جماعت کے امیدوار کامیاب قرار دیے جاتے۔
بڑے انتظار کے بعد آخر الیکشن کمیشن نے نتائج جاری کر ہی دیے، جس کے مطابق پی پی پی نے 93 جبکہ جماعت اسلامی نے 86 اور پی ٹی آئی کے حصے میں 40 یو سیز آئیں۔
الیکشن کا پہلا مرحلہ یعنی ووٹنگ اور انتخابی نتائج جیسے تیسے گزر چکا ہے، تاہم کئی دن گزرنے کے باوجود روشنیوں کے شہر میں بلدیات کی بڑی کرسی یعنی میئرکراچی کیلیے سیاسی جنگ جاری ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کراچی کے 30 ویں میئر کا ہما کس جماعت کے سر پر بیٹھے گا۔ میئر کیلیے 124 یو سیز چیئرمینوں کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے چونکہ کوئی بھی سیاسی جماعت 124 یو سیز جیتنے میں ناکام رہی ہے، اسی وجہ سے مذاکرات اور یو سی خریدنے کیلیے پیسوں کی بندربانٹ زور شور سے جاری ہے۔
جماعت اسلامی کو اس بار توقع تھی کہ سنگل لارجسٹ پوزیشن کے ساتھ وہ میئر کیلئے ڈرائیونگ سیٹ پر ہوگی، مگر ایسا نہیں ہوسکا، اب سوال یہ ہے کہ کیا جماعت اسلامی میئر شپ کیلئے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کرے گی یا پھر پی پی پی کے ساتھ ہاتھ ملائے گی؟
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف دونوں کو اپنے جلسوں میں تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں، اس لیے قیاس کرنا مشکل ہے کہ اس فضا میں جماعت اسلامی کس طرف جائے گی۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ میئر کے انتخاب کے بعد کیا پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت میئر کو تمام اختیارات دے گی یا پھر سابق میئر کراچی وسیم اختر کی طرح کراچی کے تیسویں میئر کے مقدر میں بھی اختیارات اور میونسپل فنڈز کا رونا رونا ہوگا۔
اگر جماعت اسلامی پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کرتی ہے تو میئر اور ڈپٹی میئر کس جماعت سے ہوگا؟ ان دونوں جماعتوں کے پاس فنڈز کہاں سے آئیں گے اور عوام کے مسائل کیسے حل کیے جا سکیں گے، یہ سوالات کراچی کے شہریوں کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں۔
کراچی دنیا کا دسواں بڑا شہر ہونے کے باوجود بلدیاتی سہولتوں سے محروم ہے۔ کراچی شہر 55 فیصد کچی آبادی پر مشتمل ہے، یہ کچی آبادیاں امن وامان کے لیے بھی خطرہ ثابت ہورہی ہیں، کچی آبادیاں منشیات فروشوں، اسٹریٹ کرمنلز اور دیگر برائیوں کا گڑھ بن چکی ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رسائی نہ ہونے کے باعث کچی آبادیاں جرائم پیشہ افراد کے لیے محفوظ پناہ گاہیں بنی ہوئی ہیں۔
کراچی کو اپنانے والی سیاسی جماعت کے نمائندے “اپنا کراچی” کے نام پر اپنی آنے والی نسلوں کیلیے تو سامان تیار کرلیتے ہیں لیکن کراچی کے لوگ قربانی کا بکرا بن جاتے ہیں۔
کیا اس بار حالات بدلیں گے؟ بلدیاتی نمائندے اس بار کراچی سے قبضہ مافیا، کرپشن، منشیات جیسی لعنت کا خاتمہ کر نے میں کامیاب ہوں گے؟ یہ اہم سوال ہے۔ چونکہ عام انتخابات میں وقت کم ہے اور سیاسی جماعتوں میں مقابلہ سخت ہے دیکھنا یہ ہے کہ میئر کراچی کا تاج کس پارٹی کے سر پر سجے گا اور وہ کتنا کار آمد ثابت ہوگا یا پھر ہمیشہ کی طرح شہر کراچی کو اپنانے والے شہر کراچی کے باسیوں کو پتھر کے دور میں دھکیل دینگے۔