دنیائے اسلام کے نامور مذہبی اسکالر علامہ یوسف القرضاوی 96 سال کی عمر گزار کر آخر کار دار فنا سے دار بقا کی طرف رحلت کر گئے۔ ان کی وفات بلا شبہ دینی علم و فکر کا بڑا نقصان ہے۔
دہائیوں تک علم کی دنیا پر راج کرنے والے اسکالر:
9 ستمبر 1926 کو مصر کے محافظہ غربیہ میں ایک دینی اور سیاسی رہنما کے گھر پیدا ہونے والے علامہ یوسف القرضاوی نے کئی دہائیوں تک اپنے علم و فکر کی بنیاد پر عالم اسلام کے علمی حلقوں پر راج کیا۔
اخوان فکر سے وابستگی اور مصر میں قید و بند:
علامہ یوسف القرضاوی عالم اسلام کی سب سے بڑی اور منظم سیاسی اور سماجی تحریک الاخوان المسلمون سے نظریاتی وابستگی رکھتے تھے، جس کی قیمت انہوں نے جمال عبد الناصر کے دور آمریت میں قید و بند کی صعوبتوں کی صورت میں ادا کی۔
علامہ قرضاوی اخوان کے بانی شیخ حسن البَنا کے عقیدت مند اور ان کے دست گرفتہ تھے۔ مصر میں 1952 میں بادشاہت کے خلاف اخوان المسلمین کی مدد سے مصری فوج کے محمد نجیب، جمال عبد الناصر اور انور السادات جیسے جونیئر افسران کی بغاوت کامیاب ہوئی تو جمہوریہ مصر کے پہلے محمد نجیب بنے، ایک سال بعد جمال ناصر نے بغاوت کرکے ان کا تختہ الٹ دیا اور اس کے ساتھ ہی جمال ناصر کی آمریت کا وہ دور استبداد شروع ہوا، جس کی چکی میں اخوان المسلمین بھی بری طرح رگڑی گئی۔
جمال ناصر نے بڑے پیمانے پر اخوان المسلیمن کے رہنماؤں کی دار و گیر کا سلسلہ شروع کر دیا، اس دوران علامہ قرضاوی بھی جمال ناصر کے عتاب کا شکار ہوئے۔ علامہ قرضاوی کو ان کے لکھے گئے انقلابی دینی لٹریچر کی بنیاد پر جیل میں ڈالا گیا۔
جیل سے رہائی کے کچھ عرصے بعد 1961 میں علامہ قرضاوی نے اپنے وطن مصر کو الوداع کہا اور قطر منتقل ہوگئے۔ قطر میں انہیں خوش دلی سے خوش آمدید کہا گیا اور انہیں ہر طرح سے علمی و فکری آزادی مہیا کی گئی۔ جس سے فائدہ اٹھا کر علامہ قرضاوی نے سو سے زائد کتابیں تصنیف کیں اور ایک دبنگ مسلم اسکالر کے طور پر خود کو منوا لیا۔
اپنے وطن مصر میں پچاس سال بعد قدم رکھا:
علامہ قرضاوی جمال ناصر کے دور آمریت میں ملک چھوڑ گئے تھے، جمال ناصر کے بعد ایک اور آمر انور السادات بر سر اقتدار آئے، سادات 1981 میں قتل ہوئے تو ان سے بڑے آمر اور ظالم حسنی مبارک نے اقتدار سنبھالا اور 2011 میں عرب بہار کے انقلابی جھونکوں کی تاب نہ لاکر اقتدار سے بے دخل ہوئے۔ اس تمام عرصے میں علامہ قرضاوی نے ایک دن بھی اپنے وطن مصر میں قدم نہیں رکھا۔
حسنی مبارک کی آمریت کے خلاف اخوان اور مصر کی دیگر سیاسی قوتوں کی کامیابی کے بعد علامہ قرضاوی نے 2012 میں 1961 کے بعد پہلی بار مصر میں قدم رکھا۔ اس موقع پر عوام کے جم غفیر نے ان کا استقبال کیا اور علامہ قرضاوی نے پچیس لاکھ لوگوں کے مجمع سے خطاب کیا۔
علامہ قرضاوی کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ ان کی ایک بیٹی الہام یوسف القرضاوی عالمی سطح کی ایٹمی سائنسدان ہیں۔ ان کے تمام بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ علامہ قرضاوی نے عمر کا بیشتر حصہ اپنے وطن سے دور خلیجی ریاست قطر میں گزارا۔

روشن خیال اسکالر:
علامہ قرضاوی کے افکار میں روشن خیالی، تعمق، ندرت اور انفرادیت تھی۔ وہ اس بات کے داعی تھے کہ مسلمانوں کو گرین وِچ ٹائم کے بجائے مکہ مکرمہ کے ٹائم کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ وہ تصویر کشی کو جائز قرار دیتے تھے۔ وہ عالم اسلام میں جمہوریت کے قیام کے حامی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں سیاسی اصلاحات کے حامی تھے، عرب بہار جس نے بہت سی عرب آمریتوں کا دھڑن تختہ کیا، کے پیچھے ان کی فکر و نظر کا بڑا کردار تھا، یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب سمیت بہت سی عرب بادشاہتیں انہیں دہشت گرد قرار دیتی تھیں۔
امریکا، برطانیہ میں داخلے پر پابندی:
علامہ قرضاوی پر 1999ء سے امریکا میں داخل ہونے پر پابندی عائد تھی۔2008ء میں برطانیہ نے بھی ان کا داخلہ بند کر دیا۔
اعزازات اور پذیرائی:
اسلام کی نشرواشاعت اور دینی علوم کی خدمت کی پر آپ کو دسیوں اعلیٰ ترین ایوارڈ مل چکے ہیں جن میں سعودی عرب کا شاہ فیصل عالمی ایوارڈ، دبئی انٹرنیشنل ہولی قرآن ایوارڈ، سلطان حسن البلقیہ ایوارڈ سرفہرست ہیں، یہاں یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ طویل عرصے تک علامہ قرضاوی سعودی عر ب اور آل سعود کے یہاں بھی بڑا مقام رکھتے تھے، تاہم ان کے سیاسی خیالات کی بنا پر بعد میں سعودی حکومت نے ان سے ناتا توڑ دیا۔