حزب اللہ کے اہم ترین رہنما کے طور انہوں نے نہ صرف اس مزاحمتی تنظیم کو لبنان کی سیاست میں ایک اہم کردار دلوایا ہے بلکہ خود کو بھی لبنان کی ایک بااثر شخصیت کے طور پر منوا لیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق وہ سفارتکار اور دیگر افراد جنہیں حسن نصر اللہ سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے ان کی معاملہ فہمی، ذہانت اور سیاسی تدبر کے معترف ہیں۔
مصری نژاد امریکی کامیڈین بسیم یوسف نے مغرب اور اسرائیل کو کیسے بے نقاب کیا؟
حسن نصر اللہ سنہ 1960 میں مشرقی بیروت کے علاقے بورجی حمود میں پیدا ہوئے۔ 1975 میں جب لبنان خانہ جنگی کی لپیٹ میں آیا تو ان کا خاندان جنوبی لبنان میں ان کے آبائی گاؤں بسوریہ چلا گیا۔ بسوریہ میں ہی حسن نے امل تحریک میں شمولیت اختیار کی جو کہ اس وقت لبنان میں مسلح شیعہ تحریک تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب حسن کی عمر پندرہ برس تھی۔
لڑکپن میں حسن نصر اللہ کو عراق کے مقدس شہر نجف بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے ایک شیعہ مدرسے میں قرآن اور سیاست کی تعلیم حاصل کی اور یہیں ان کی ملاقات سید عباس موسوی سے ہوئی جو لبنانی امل ملیشیا کے رہنما تھے۔
1978 میں شیخ نصراللہ کو عراق سے بے دخل کر دیا گیا اور وہ لبنان واپس آ گئے جہاں انہوں نے بعلبک میں عباس موسوی کے مدرسے میں مذہبی تعلیم و تدریس کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔ آنے والے برسوں میں حسن نصر اللہ لبنانی سیاست میں پوری طرح سرگرم ہوگئے اور انہیں بقا کے علاقے میں امل ملیشیا کا سیاسی نمائندہ مقرر کیا گیا۔
1982 میں لبنان میں اسرائیلی در اندازی کے بعد حالات بدل گئے۔ حسن اور ان کے متعدد ساتھیوں نے امل تحریک سے علیحدگی اختیار کر لی اور خود کو اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے لئے وقف کر دیا۔ حسن نصر اللہ نے امل سے علیحدگی کے بعد حزب اللہ نامی اس تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی جس کا مقصد جنوبی لبنان کی وادی بقا میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت کرنا تھا۔
حزب اللہ کی ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ حسن مذہب کا عالم بننے کا خواب بھی پورا کرنا چاہتے تھے اور اسی لئے وہ 1989 میں ایران کے شہر قم چلے گئے تاکہ اپنی مذہبی تعلیم کا سلسلہ مکمل کر سکیں۔
1992 میں اسرائیلیوں کے ہاتھوں حزب اللہ کے رہنما عباس موسوی کی ہلاکت کے بعد حسن نصر اللہ کو تنظیم کا نیا لیڈر منتخب کر لیا گیا۔ اس وقت ان کی عمر بتیس برس تھی۔
حسن کی قیادت میں حزب اللہ اسرائیل کی ایک اہم مخالف کے طور پر ابھری۔ انہوں نے اسرائیلی افواج کے خلاف چھوٹے پیمانے پر جنگ کی پالیسی اپنائی اور ان کی یہ مزاحمتی تحریک سنہ 2000 میں بائیس سال بعد جنوبی لبنان سے اسرائیلی افواج کے انخلاء کا اہم سبب بنی۔
حسن نصراللہ نے 2004 میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے میں بھی اہم کردار ادا کیا اور اس معاہدے کو حزب اللہ اور حسن نصراللہ کی فتح کے طور پر دیکھا گیا۔ 2005 میں لبنان کے وزیراعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد حسن نصر اللہ نے ملک کے مختلف سیاسی دھڑوں کے درمیان ایک ثالث کا کردار بھی بخوبی نبھایا۔
حسن نصر اللہ کے لئے حزب اللہ صرف ایک مزاحمتی گروہ نہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم ایک ایسا پیغام پھیلا رہی ہے جس کی بنیاد دینِ اسلام پر ہے۔
حسن نصر اللہ اپنی لبنانی اہلیہ اور تین بچوں کے ہمراہ جنوبی بیروت کے ایک متوسط علاقے میں رہتے ہیں اور ان کا بڑا بیٹا ہادی 1997 میں اٹھارہ برس کی عمر میں اسرائیلی حملے میں شہید ہو چکا ہے۔