گلگت بلتستان میں نئی حکومت بنانے کیلئے کس کے دعوے سچ ثابت ہوسکتے ہیں؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گلگت بلتستان میں نئی حکومت بنانے کیلئے کس کے دعوے سچ ثابت ہوسکتے ہیں؟
گلگت بلتستان میں نئی حکومت بنانے کیلئے کس کے دعوے سچ ثابت ہوسکتے ہیں؟

پاکستان کے خوبصورت خطے گلگت بلتستان میں بالآخر 15 نومبر کو انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا گیا ہے، پیپلز پارٹی سمیت ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں گلگت بلتستان میں واضح اکثریت کے ساتھ جیت کا دعویٰ کرتی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کس کے دعوے سچ ثابت ہوں گے؟

آنے والا وقت ہی بہتر بتا سکتا ہے کہ حکومت بنانے کے وعدے کون پورے کرے گا؟ گلگت بلتستان کو اب تک آئینی صوبہ تو نہ بنایا جاسکتا، تاہم گلگت بلتستان میں 15 نومبر کو انتخابات کا انعقاد ایک خوش آئند اقدام قرار دیا جاسکتا ہے۔ آئیے گلگت بلتستان  میں ہونے والے انتخابات کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔

الیکشن 2020ء کا شیڈول 

گلگت بلتستان میں الیکشن 2020ء کا شیڈول 4 روز قبل جاری کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ تمام تر 24 حلقوں میں انتخابات کا انعقاد 15 نومبر کو عمل میں لایا جائے گا۔

چیئرمین الیکشن کمیشن راجہ شہباز کے مطابق گلگت بلتستان اسمبلی الیکشن کیلئے 25 تا 30 ستمبر تک کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے جاسکتے ہیں، گویا کاغذاتِ نامزدگی جمع  کرانے کا عمل گزشتہ ماہ کے اختتام کے ساتھ ہی پایۂ تکمیل کو پہنچا۔

رواں ماہ 7 اکتوبر تک کاغذات کی جانچ پڑتال مکمل ہوئی، امیدواروں کی حتمی فہرست 19 اکتوبر کو شائع ہوئی اور 8 روز قبل امیدواروں کو انتخابی نشانات بھی الاٹ کردئیے گئے۔

گزشتہ اسمبلی کی میعاد رواں برس 24 جون کو ختم ہوئی جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا اور پھر صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے انتخابات منعقد کرانے کا اعلان کیا۔

صدرِ مملکت کا اعلان اور انتخابات

پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا جس میں کہا گیا کہ 15 نومبر کو گلگت بلتستان میں انتخابات ہوں گے، جس کیلئے انتخابی ایکٹ 2017ء کی دفعہ 57(1) کے مطابق رائے شماری کے الفاظ کا استعمال کیا گیا۔

ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے یہ اعلان گلگت بلتستان کو صوبائی درجہ دینے کے دعووں اور دیگر متعلقہ بیانات کے دوران سامنے آیا۔ 

صوبے کا درجہ دینے کا مسئلہ 

قبل ازیں گلگت بلتستان کو شمالی علاقہ جات کہا جاتا تھا، حکومت گلگت بلتستان کو عارضی صوبائی درجہ دینے کی تجاویز پر بھی مشاورت کرتی رہی جس کیلئے اپوزیشن جماعتوں سے معاہدے کی بازگشت بھی سنائی دی، تاہم تاحال گلگت بلتستان صوبے کی آئینی حیثیت حاصل نہیں کرسکا، تاہم اس کی اپنی اسمبلی ضرور موجود ہے۔

مختصر طور پر صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ گلگت بلتستان کو علاقائی اعتبار سے جموں و کشمیر سے منسلک سمجھا جاتا ہے جسے بھارت نے آئینی طور پر ریاست تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے اور اسے بھارت کا حصہ بنا کر متنازعہ علاقے کا جغرافیائی تبدیل کرنے کی گھناؤنی سازش پر عمل پیرا ہے۔

ایسے میں اگر پاکستان گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دے دے تو عالمی سطح پر مسئلۂ کشمیر کا مقدمہ متاثر ہونے کے خدشات سر اٹھا سکتے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ ابھی تک گلگت بلتستان کو باضابطہ صوبہ نہ بنایاجاسکا۔

یہاں وزیر ریلوے شیخ رشید کے اس دعوے کا ذکر بھی ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنما آرمی چیف کو یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ وہ گلگت بلتستان کو عارضی صوبائی حیثیت دینے کی حمایت کریں گے۔ 

بھارتی ہٹ دھرمی

ایک طرف خطے کے عوام کا مطالبہ ہے کہ گلگت بلتستان کو ضرور صوبہ بنایا جائے جبکہ دوسری جانب انتخابات کے انعقاد اور صوبے کی حیثیت دینے پر بھارت کا مذمتی بیان سامنے آیا ہے۔ بھارت نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان خطے پر غیر قانونی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔

بھارتی وزارتِ خارجہ نے گزشتہ ماہ ایک بیان میں کہا کہ 15 نومبر کو گلگت بلتستان کے جو انتخابات ہو رہے ہیں، ہم پاکستان کے اِس اقدام کے مخالف ہیں۔ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ پاکستان کا گلگت بلتستان پر قبضہ سراسر غیر قانونی ہے۔ 

انتظام و انصرام اور قانونی پیچیدگیاں

خطے کا انتظام حکومت گلگت بلتستان آرڈر 2018ء کے تحت چلا رہی ہے جو قبل ازیں گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009ء کی جگہ لے چکا ہے۔

مذکورہ آئینی پکیج کے تحت گلگت بلتستان میں پہلی بار گورنر اور وزیرِ اعلیٰ کے دفاتر قائم ہوئے، پھر بھی گلگت بلتستان کے عوام پارلیمانی نمائندگی سے محروم رہے۔

جون 2015ء میں جو حکومت قائم ہوئی تھی، وہ آئینی مدت رواں برس ہی مکمل کرچکی تھی، تاہم کورونا وائرس کے باعث انتخابات کا فیصلہ 15 نومبر تک مؤخر کیا گیا۔

سیاسی جماعتوں کے گلگت بلتستان انتخابات جیتنے کے دعوے

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری بارہا گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم کرنے سے متعلق اظہارِ خیال کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ انتخابات 2020ء میں پیپلز پارٹی بھاری اکثریت کے ساتھ جیتے گی۔

دوسری جانب گلگت بلتستان انتخابات سے کم و بیش 30 روز قبل ہی 12 سے زائد سیاسی جماعتوں نے انتخابات جیتنے کی سر توڑ کوششیں، سیاسی مہم اور بیانات دینا شروع کردئیے ہیں۔

انتخابات جیتنے کی دوڑ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ سابق حکمران پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریکِ انصاف اور دیگر 1 درجن سے زائد سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔

واضح رہے کہ علاقائی اسمبلی کل 24 نشستوں پر مشتمل ہے جہاں 7 لاکھ سے زائد شہری ووٹ کا حق استعمال کریں گے اور اپنی پسند کی کسی بھی سیاسی جماعت کو حقِ حکمرانی سے نوازیں گے۔

اراکینِ گلگت بلتستان اسمبلی کی تعداد 33 ہے جن میں سے 24براہِ راست انتخابات کے ذریعے اراکینِ اسمبلی بنیں گے جبکہ دیگر خصوصی نشستوں میں سے 6 خواتین اور 3 ٹیکنوکریٹس کے حصے میں آئیں گی۔ 

کامیاب کون ہوگا؟

مسلم لیگ (ن) جو پہلے حکومت بنا چکی ہے اور پیپلز پارٹی جو گلگت بلتستان کو سابق صدر آصف زرداری کے دور میں آئینی اصلاحات دینے کی دعویدار ہے، دونوں ہی جیت کے مضبوط امیدوار نظر آتےہیں۔

تاہم پاکستان بھر کے عام انتخابات 2018ء کے نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں کہ کرکٹ کے میدان سے اٹھنے والے عمران خان ملک کے وزیرِ اعظم کیسے بنے؟ اِس لیے گلگت بلتستان انتخابات کے نتائج کے بارے میں قبل از وقت کچھ کہنا درست نہیں ہوگا۔ 

 

 

Related Posts