پاکستانی معاشرے میں گڑبڑ کہاں ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

میں نے اپنی زندگی میں بچپن سے لے کر اب تک یہی سنا ہے کہ ہر چیز میں ملاوٹ ہے۔ کوئی چیز خالص نہیں رہی، ہرجگہ گڑبڑ ہے،آخر اصل گڑ بڑ ہے کہاں؟ ملک کے حکمرانوں میں یا پھر عوام میں؟؟

میں بھی عام انسان ہوں میرا شمار بھی عوام میں ہوتا ہے۔لوگوں کی باتیں سن کر اور اپنے ذاتی تجربے کی بنیادپر میں یہ بات کہتی ہوں کہ ملک کو حکمرانوں نے لوٹا ہے اوربہت نقصان پہنچایا ہے۔ایک دن کافی عرصے کے بعد اپنے دوستوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا موقع ملا۔ ملکی حالات پرسب اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ایک دوست نے تو نظام اور حکمرانوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔

اُس کا کہنا یہ تھا کہ ہمارا سسٹم ہی خراب ہے۔ہمارے حکمران خود اپنے ملک سے اور اپنے عہدے سے مخلص نہیں ہیں۔ہر کوئی لوٹ مار میں لگا ہوا ہے، ہر حکمران ملک کو لوٹنے کے لئے اپنی باری کا انتظار کرتا ہے۔ان لوگوں نے ملک کو لوٹ لوٹ کے اپنی پشتوں کے لئے جائیدادیں بنا لیں،مگران لوگوں نے ملک اور قوم کے حالات بدلنے کے لئے کچھ نہیں کیا۔

یعنی ملک کے حالات بدلنے کے لئے ان لوگوں نے کچھ ایسا نہیں کیا جس کی بناء پرحالات بہتری کی طرف جائیں بلکہ غریب کے حالات ہر نئی حکومت میں خراب سے خراب تر ہی ہوئے ہیں۔ اسی طرح کی بہت باتیں ہوئیں اور ہر ایک نے اپنا اپنا مؤقف بیان کیا۔ 

جب میں گھر آئی تو میں نے سوچا کہ کیا ہم خود صحیح ہیں؟ کیا معا شرے کے بگاڑمیں ہمارا کوئی کردار نہیں ہے؟ ہم خود کیا کر رہے ہیں؟ کیا ہم بھی اس گڑبڑ کے کافی حد تک ذمہ دار نہیں ہیں؟

دودھ میں پانی، شہد میں شیرہ، ہلدی میں مصنوئی رنگ، چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے، پھلوں میں میٹھے انجکشن،گوشت کا وزن بڑھانے کے لئے اس میں پانی کے انجکشن،شادیوں کے کھانے میں مرے ہوئے جانوروں کا گوشت،منرل واٹر میں نلکے کا پانی، جعلی کمپنیوں کے موبائل اصل کمپنی کے بتا کے بیچنا، جعلی صابن،جعلی شیمپو،جعلی سرف،جعلی ادویات، اسپتالوں میں جعلی ڈاکٹر، بازاروں میں 2 نمبر سامان، امتحانات میں نقل، ہمارے بچوں کے ہاتھوں میں قرآن کی بجائے موبائل، دوستی اور محبت میں دھوکہ،رشتیداری میں منافقت، ناپ تول میں کمی،جھوٹ بول کے غلط سامان بیچنا،سرکاری اداروں میں بے پناہ رشوت، نوکری میں کام چوری، خواتین کے حیا سوز لباس، شادیوں میں ناچ گانے اور شراب کی محفلیں، موبا ئل فون میں فحش فلمیں اور فحش تصاویر رکھنا، بہن بھائیوں کا آپس میں لڑنا، میاں بیوی کا ایک دوسرے سے نفرت کرنا، بڑوں کا ادب احترام نہ کرنا، جھوٹ کو نیکی سمجھ کر پھیلانا، چوری کا عام ہو جانا،علم پر غرور،عبادت میں ریاکاری،اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے۔

پھر ہم کہتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ان سب کاموں میں ملاوٹ کرتے کرتے تو ہمارے بچے آفیسر،سیاستدان،وکیل یاحکمران بنتے ہیں۔توپھر ان سب سے شکوہ کیوں؟

ہم پہلے اپنے اندر کیوں نہیں جھانکتے؟ ہم انفرادی تبدیلی کی بجائے براہِ راست اجتماعی تبدیلی چاہتے ہیں۔ہمیں پہلے خود کو بدلنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ جب ہم ایک ایک کر کے سب اپنے آپ کو بدلیں گے تو تب کہیں جا کے معاشرے کی گڑ بڑ کچھ کم ہو گی۔یاد رکھیں اگر ملک میں تبدیلی چاہتے ہیں تو پہلے خود کو بدلنا ہو کیونکہ جیسی عوام ویسے حکمران۔

Related Posts