فلسطین کی اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) اور برادر تنظیموں کی جانب سے اسرائیل پر انتہائی پیچیدہ حملہ کرنے کے بعد ایک بار پھر خبروں میں غزہ کی پٹی اور حماس کی گونج ہے، تاہم بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ غزہ کی پٹی کیا ہے، اس کا جغرافیائی محل وقوع کیا ہے اور حماس کا غزہ سے کیا تعلق ہے؟
فلسطین اور مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ محبت اور عقیدت اور ان کیلئے دن رات کامیابی کی دعاؤں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ فلسطین کے جغرافیے کے متعلق مسلم دنیا میں عوامی سطح پر آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔
آج ہم غزہ اور حماس پر بات کرتے ہیں۔ فلسطین جسے مسلم دنیا اس خونین مسئلے کے دو ریاستی حل کا “مرکزی خیال” باور کرتی ہے، دراصل چند قصبوں پر مشتمل نسبتاً دو بڑے قطعات اراضی پر مشتمل ہے۔
فلسطین کے دو حصے
آپ نے فلسطین سے متعلق خبروں میں عموماً دو نام سنے ہوں گے، ایک مغربی کنارہ اور دوسرا غزہ، مغربی کنارہ جسے انگریزی پریس ویسٹ بینک کہتا ہے، دراصل ارض فلسطین کا وہ حصہ ہے، جو دریائے اردن کے مغربی سمت واقع ہے، اس لیے اسے غرب اردن اور دریائے اردن کا مغربی کنارہ بھی کہتے ہیں۔
اسی مغربی کنارے میں تین آسمانی مذاہب یہودیت، مسیحیت اور اسلام کیلئے یکساں مذہبی اور روحانی اہمیت رکھنے والا شہر القدس، جسے مسلم دنیا بیت المقدس بھی کہتی ہے، واقع ہے، یروشلم اسی القدس کا دوسرا یا یوں سمجھئے “غیر اسلامی” نام ہے۔
مغربی کنارے میں القدس کے علاوہ فلسطینی مقتدرہ کا مرکز رام اللہ، رملہ، الخلیل، جنین وغیرہ علاقے شامل ہیں۔
غزہ کہاں واقع ہے؟
اب آتے ہیں، موجودہ ارض فلسطین کے دوسرے حصے غزہ کی طرف، غزہ مغربی کنارے کے مغرب میں واقع ہے، مگر آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ مغربی کنارے کے ساتھ متصل نہیں ہے۔
المیہ یہ ہے کہ موجودہ ارض فلسطین کے نسبتاً بڑے حصے یعنی مغربی کنارے (غرب اردن) اور غزہ کے درمیان اسرائیل حائل ہے، اس طرح غزہ فلسطین کے باقی حصے سے مکمل طور پر کٹا ہوا اور دوری پر واقع ہے۔
آبادی کی بات کی جائے تو مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی تعداد 32 لاکھ، جبکہ غزہ میں 22 لاکھ ہے۔
غزہ کا محل وقوع
غزہ جہاں ارض فلسطین کے باقی حصے سے کٹا ہوا ہے، وہاں یہ دو اطراف سے اسرائیل میں گھرا ہوا ہے، اس کے ایک طرف بحر متوسط (Mediterranean Sea) جبکہ ایک طرف محض چھ کلومیٹر کی چھوٹی سی سرحد مصر سے لگتی ہے، جہاں رفح کراسنگ (گزرگاہ) غزہ اور مصر کو ملانے کا کام دیتی ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی اوپن ایئر جیل
اس طرح غزہ ایک مکمل زیر محاصرہ شہر ہے، جسے دنیا کی سب سے بڑی اوپن ایئر جیل بھی کہا جاتا ہے، یعنی ایک ایسی جیل جس کی چار دیواری اور چھت تو نہیں، مگر وہاں دنیا میں سب سے زیادہ تعداد میں قیدی موجود ہیں۔
غزہ کو غزہ کی پٹی، انگریزی میں غزہ اسٹرِپ، غزہ انکلیو اور عربی میں قِطاع غزہ کہا جاتا ہے۔
حماس کا تعارف
اب آتے ہیں حماس کی طرف، حماس دراصل “حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ” کا مخفف ہے، جس کے معنی اسلامی تحریک مزاحمت ہیں۔
حماس کو فلسطین بھر میں مقبولیت حاصل ہے، تاہم اس کا اثر رسوخ غزہ میں سب سے زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ فلسطینی مقتدرہ کے الیکشن 2006 میں حماس نے فلسطین بھر سے واضح اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی، جس کے نتیجے میں حماس رہنما اسماعیل ھنیہ فسلطینی مقتدرہ کے وزیر اعظم منتخب ہوئے، تاہم مغربی کنارے میں جڑیں رکھنے والی الفتح کے ساتھ اختلافات کے نتیجے میں 2007 میں الفتح سے تعلق رکھنے والے فلسطینی صدر محمود عباس نے حماس کی حکومت ختم کر دی۔
غزہ پر حماس کا کنٹرول
حکومت ختم ہونے کے بعد حماس نے غزہ میں اپنی متوازی حکومت قائم کی، تاہم اس حکومت کو دنیا میں کہیں بھی تسلیم نہیں کیا جاتا، اس کے باوجود غزہ پر حماس کے تمام تر شہری نظم و نسق پر حماس کا کنٹرول قائم ہے۔
حماس 1987 میں قائم ہوئی، 2004 میں یکے بعد دیگر حماس کے دو رہنما بانی شیخ احمد یاسین اور عبد العزیز رنتیسی کی اسرائیلی حملے میں موت کے بعد حماس نے اپنی مرکزی قیادت کو مختلف شعبوں میں تقسیم کرنے کی اسٹریٹجی اختیار کر رکھی ہے، چنانچہ حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل ہیں، جو فلسطین سے جلاوطن ہیں، جبکہ عسکری ونگ عز الدین القسام ہے، اس کی سربراہی صالح العاروی کے پاس ہے۔
اسرائیل پر موجودہ پیچیدہ حملے کی پلاننگ عز الدین قسام بریگیڈ نے کی، جس کے ماسٹر مائنڈ یہی صالح العاروری ہیں۔
غزہ کی پٹی میں حماس کے علاوہ اسلامی جہاد نامی تنظیم بھی اثر رسوخ رکھتی ہے، موجودہ حملے میں اسلامی جہاد بھی حماس کے شانہ بشانہ رہی ہے۔
اسلامی جہاد کے ساتھ اختلاف کی بنیاد
اسلامی جہاد غزہ کے علاوہ مغربی کنارے میں الخلیل اور جنین میں بھی بھرپور اثر رسوخ رکھتی ہے۔ حماس کے اس کے اختلاف دو نکات پر ہے، ایک یہ کہ حماس اسرائیل کے ساتھ مذاکرات پر بھی یقین رکھتی ہے جبکہ اسلامی جہاد اسرائیل کے وجود کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتی، جہاد ہی واحد راستہ قرار دیتی ہے۔
اسلامی جہاد اور حماس میں اختلاف کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ حماس الیکشن پر بھی یقین رکھتی ہے، جبکہ اسلامی جہاد الیکشن کو بھی نہیں مانتی۔