رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی سالانہ زکوۃ دینے کی تیاری شروع کردیتے ہیں۔ زکوۃ اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ہے۔ اس کے ساتھ اللہ اور پیغمبر اسلام (ص) پر ایمان ، نماز ، روزہ اور حج اسلام کے دیگر ستون ہیں۔
زکوۃ کے لفظی معنی پاک کرنا کے ہیں۔ قرآنِ کریم میں ایمان کے بعد نماز اور اس کے ساتھ ہی جا بجا زکوٰۃ کا ذکر کیا گیاہے۔ زکوٰۃ کے لغوی معنی پاک ہونا، بڑھنا اور نشوونما پانا کے ہیں۔ یہ مالی عبادت ہے۔ یہ محض ناداروں کی کفالت اور دولت کی تقسیم کا ایک موزوں ترین عمل ہی نہیں بلکہ ایسی عبادت ہے جو قلب اور رُوح کا میل کچیل بھی صاف کرتی ہے۔ زکوۃ کا قرآن مجید میں 82 مقامات پر ذکر آیا ہے۔
سورہ بقرہ کی آیت نمبر 110 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو، جو بھلائی تم آگے بھیجو گے وہ اللہ کے حضور میں پاؤ گے۔”
قرآن کریم نے بھی اور حدیث مبارکه میں بھی بھوکوں کو کھانا کھلانے کی اہمیت نماز سے زیادہ رکھی ہے،
قرآن کریم کی آیت مبارکه ہے:
(لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِکَة وَ الْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّه ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوة وَ اٰتَی الزَّکٰوة)
’’ایمان یہ نہیں ہے کہ تم اپنا منہ مشرق یا مغرب کی طرف کر لو، بلکہ ایمان تو یہ ہے کہ آدمی اللہ پر ایمان لائے، اور یوم آخر ملائکہ اور کتاب اور نبیین ، اور اپنا مال اللہ کی محبت میں ذوی القربیٰ والیتیمی والمساکین مسافروں، اور سائلوں اور غلاموں کو آزاد کرانے کے لیے دے،ا ور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔‘‘
اپنے طور پر زکوۃ کا حساب لگانا اور بنیادی باتوں میں اپنا سرکھپانا کبھی کبھی مشکل ہوجاتا ہے اسی وجہ سے ہم نے زکوۃ اس مضمون میں زکوۃ سے متعلق بنیادی غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کی ہے۔
زکوۃ کس پر اور کتنی فرض ہے؟
جوشخص مسلمان، عاقل و بالغ ،آزاد ہو، نصاب کے برابر مال رکھتا ہو، ما ل ضروریات اصلیہ سے زائد ہو اور اس مال پر پورا سال گذر جائے تو اس پر زکوٰة فرض ہے، نصاب سے مراد یہ ہے کہ ساڑھے 7 تولہ سونا ہو یا ساڑھے 52 تولہ چاندی ہو یا دونوں کی مالیت کے برابر یا دونوں میں سے ایک کی مالیت کے برابر نقدی ہو یا سامانِ تجارت ہو یا یہ سب ملا کر یا ان میں سے بعض ملا کر مجموعی مالیت چاندی کے نصاب کے برابر بنتی ہو۔
زکاة کے وجوب کے لیے قمری سال کا اعتبار ہے نہ کہ انگریزی تاریخ کا۔ لہٰذا جس دن سے آپ صاحب نصاب بنے ہیں اس دن سے چاند کی تاریخ کے اعتبار سے سال پورا ہونے پر آپ پر زکاة کی ادائیگی لازم ہے، بلاعذر تأخیر کرنا گناہ ہے، جتنا جلد ہوسکے سال پورا ہونے پر زکاة ادا کرکے ذمہ فارغ کرلیں۔ علمائے کرام کے نزدیک جو بھی زکوۃ دینے سے انکار کرے وہ کافر ہے۔ زکوۃ کی شرعیت میں شرح 2.5 فیصد طے کی گئی ہے ۔
زکوۃ کے مصارف
وہ غریب لوگ جن کی آمدنی بہت کم ہے یا پھر ہے ہی نہیں۔ وہ ضرورت مند شخص جو اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے محنت کررہا ہے مگر اس کا گزر بسر مشکل ہو۔
ان لوگوں کو بھی زکوۃ دی جاسکتی ہے جو زکوۃ اکٹھی کرتے ہیں ، جمع کرتے ہیں ، حفاظت کرتے ہیں اور جن پر اس کو تقسیم کرنے کے ذمہ داری ہوتی ہے۔
زکوۃ ان ضرورت مند مسلمانوں کو بھی دی جاسکتی ہے جو اسلام میں نئے نئے داخل ہوتے ہیں۔ زکوۃ غلاموں کو آزاد کرانے کے لئے استعمال کی جاسکتی ہے۔ قرض داروں کو قرض سے خلاصی کے لیے زکوۃ سے رقم ادا کی جاسکتی ہے۔
زکوۃ کس کو نہیں دی جاسکتی؟
جن لوگوں سے ولاد یا زوجیت کا تعلق ہے ان کو زکاة کی رقم دینا جائز نہیں۔ ولاد میں اوپر ماں، باپ دادا دادی، نانا، نانی اور نیچے میں لڑکا، لڑکی، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی شامل ہیں ان کو زکاة کی رقم دینا جائز نہیں، اسی طرح میاں بیوی باہم ایک دوسرے کو زکاة کی رقم نہیں دے سکتے۔
زکوۃ غیرمسلم کو نہیں دی جاسکتی ہے۔ جس شخص کو زکوۃ دی جارہی ہے اس سے متعلق پہلے تحقیق کرلیں کہ وہ زکوۃ کے قابل ہے بھی یا نہیں۔ اگر کسی ایسے شخص کو زکوۃ دے دی جاتی جس کا بعد میں پتا چلتا ہے کہ زکوۃ لینے والا شخص صاحب حیثیت تھا تو زکوۃ ادا نہیں ہوئی ۔ زکوۃ دوبارہ ادا کرنا ہو گی۔
زکوۃ کے پیسوں سے کسی ادارے کو کتابیں خرید کر نہیں دی جاسکتیں اور نہ غریبوں کے لیے اراضی خرید کر وقف کی جاسکتی ہے۔ زکوۃ ایسے مردے کے کفن دفن کے لئے بھی استعمال نہیں ہوسکتی جس کا کوئی وارث نہ ہو۔
خلاصہ
سورہ بقرہ کی آیت نمبر 177 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” یہی نیکی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیرو بلکہ نیکی تو یہ ہے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور فرشتوں اور کتابوں اور نبیوں پر، اور اس کی محبت میں رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور سوال کرنے والوں کو اور گردنوں کے چھڑانے میں مال دے، اور نماز پڑھے اور زکوٰۃ دے، اور جو اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہیں جب وہ عہد کرلیں، اورتنگدستی میں اور بیماری میں اور لڑائی کے وقت صبر کرنے والے ہیں، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔”
زکوۃ کوئی خیراتی رقم یا ٹیکس نہیں ہے ۔ بلکہ یہ ایک فرض ہے کیونکہ یہ اسلام کا 5واں بنیادی رکن ہے۔ زکوۃ دینا والا ہر مسلمان یہ تسلیم کرتا ہے کہ جو بھی مال ہے اللہ ہے اور ہر شے کو لوٹ کر اللہ کی طرف جانا ہے۔ اور اللہ ہی کا حکم ہے کہ غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرو۔
ہمارا ماحول اور دنیا جس میں ہم رہتے ہیں اور کام کرتے ہیں وہ ہمارے رویوں اور اعمال کا آئینہ دار ہے۔ انسانی زندگی کا مقصد خود غرضی میں اپنی زندگی کو ضائع کرنا نہیں ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ اپنی زندگی کو دوسروں کی بھلائی کے لئے وقف کرنا ہے۔ اعلیٰ کردار والا شخص وہ ہوتا ہے جو خاندان ، معاشرے اور اس کے لوگوں کی خدمت کرتا ہے اور دوسروں کو بہتر زندگی گزارنے کے لئے تقویت دینے کے لئے صدقہ یا زکوۃ ادا کرتا ہے۔