بین الاقوامی منڈیاں اِس وقت شدید مندی اور کساد بازاری کا شکار ہیں جبکہ اِس تمام تر صورتحال کے پیش نظر ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ کساد بازاری کیا ہوتی ہے اور یہ کیسے پیدا ہوتی ہے؟ اس کی وجوہات اور اسباب کیا ہیں۔
موجودہ صورتحال کے پیش نظر ایک عام تاثر یہ ہے کہ کورونا وائرس دنیا کے 120 سے زائد ممالک میں پھیل چکا ہے جو کساد بازاری پیدا کر رہا ہے۔ بے شک یہ کساد بازاری کا بڑا سبب ہوسکتا ہے لیکن ہمیں دیگر اسباب کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔
کساد بازاری کیا ہے؟
سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کساد بازاری کیا ہے۔ کساد بازاری یا مندی سے مراد اسٹاک مارکیٹ میں منفی رجحان ہے جس کے تحت حصص (شیئرز) کی قیمتیں ایک دم سے نیچے آنا شروع ہوجاتی ہیں۔
آسان الفاظ میں جب کوئی چیز سستی ہوتی ہے تو اسے کم قیمت پر فروخت کرنا پڑتا ہے جس سے تاجروں کو نقصان ہوتا ہے۔ لوگ جتنا پیسا لگاتے ہیں، وہ ڈوب جاتا ہے۔ اسے کساد بازاری یامندی کہتے ہیں۔
تازہ ترین کساد بازاری
آپ کو اسٹاک ایکسچینج میں کوئی دلچسپی نہ بھی ہو تو آج پاکستان اسٹاک مارکیٹ کی صورتحال پر مختلف میڈیا رپورٹس کا جائزہ ضرور لیں۔ اِس سے آپ کو کساد بازاری کے حقیقی مطلب کا اندازہ ہوجائے گا۔
تازہ ترین کساد بازاری یہ ہے کہ آج اسٹاک مارکیٹ 1600 پوائنٹس سے بھی زیادہ نیچے گر گئی جس سے سرمایہ کاروں کا اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ کاروبار کے شروع میں ہی اتنی کساد بازاری کے پیش نظر کاروبار 45 منٹ کے لیے بند کرنا پڑا۔
وجوہات و اسباب
کاروبار میں کساد بازاری کی ظاہری وجوہات میں گزشتہ روز وبا قرار دئیے جانے والے کورونا وائرس کا بہت بڑا ہاتھ قرار دیا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں وائرس کے خلاف انتہائی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جو ان ممالک کی قومی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔
کورونا وائرس کے پیش نظر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ہم ایک ماہ کے لیے یورپ ممالک سے امریکا اور امریکا سے یورپی ممالک کے سفر پر پابندی عائد کر رہے ہیں جس کے بعد دنیا بھر کی مارکیٹس تیزی سے نیچے آنا شروع ہو گئیں۔
وباؤں کا کردار
کساد بازاری کوئی نئی بات نہیں ہے تاہم کوئی بھی ایسی بات جو عالمی سطح پر کوئی غیر یقینی صورتحال پیدا کر دے، وہ سرمایہ کاروں کے لیے پریشانی کا باعث بنتی ہے جس سے مارکیٹس میں کاروبار مندی کا شکار ہوتا ہے۔کورونا وائرس نے ایسی ہی ایک غیر یقینی صورتحال پیدا کی ہے جس سے دنیا بھر میں کاروبار بری طرح متاثر ہوا ہے۔
تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ کورونا وائرس نے 1 لاکھ 34 ہزار 807 افراد کو متاثر کیا۔ 4 ہزار 984 افراد اب تک وائرس کے باعث ہلاک ہوئے جبکہ 5 ہزار 758 افراد کی حالت تشویشناک ہے۔
اگر ہم گزشتہ ادوار کی وباؤں کی بات کریں تو ایبولا نامی وائرس نے 28 ہزار 616 افراد کو متاثر کیا جبکہ اس کے باعث 11 ہزار 310 افراد ہلاک ہوئے جس کا مطلب یہ ہے کہ وائرس سے ہونے والی ہلاکتیں 40 فیصد تھیں جو موجودہ کورونا وائرس سے زیادہ ہیں۔
ماضی میں امریکا میں سوائن فلو نامی وبا نے 6 کروڑ 10 لاکھ افراد کو متاثر کیا جس سے 12 ہزار 469 افراد ہلاک ہوئے جبکہ دنیا بھر میں 5 لاکھ 75 ہزار 400 افراد ہلاک ہوئے جبکہ اسپینش فلو نامی وبا سے 2 سے 5 کروڑ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
بلیک ڈیتھ نامی بیماری بے حد پرانی بات ہے۔ یہ سن 1346 سے 1353 کے درمیان پھیلی جس نے 5 کروڑ لوگوں کی جان لی جو اُس وقت یورپ کی آبادی کے 60 فیصد کے برابر بنتا ہے۔
کساد بازاری کی دیگر وجوہات
اگر ہم دیگر وجوہات کی بات کریں تو بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی بڑی بڑی تبدیلیاں، اہم واقعات اور حادثات کساد بازاری کی وجوہات بنتے ہیں۔
مثال کے طور پر گزشتہ دنوں پاک بھارت جنگ کے حوالے سے پیش گوئیاں شروع ہوئیں جس سے مارکیٹ کا بے حد نقصان ہوا۔ آپ جس ملک میں سرمایہ کاری کر رہے ہوں، وہاں جنگ چھڑ جائے تو کاروبار کی تباہی سامنے کی بات نظر آتی ہے۔
حالیہ دنوں میں روس اور سعودی عرب کا تیل تنازعہ بھی کساد بازاری کا باعث بنا۔ سعودی عرب نے کہا تیل کی سپلائی کم کرو تاکہ تیل کی قیمت اوپر آجائے۔ روس نے کہا مجھے ایسا کرنے کی ضرورت نہیں۔
اس پر سعودی قیادت نے طیش میں آ کر تیل کی سپلائی بڑھا دی جس سے ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی اور مارکیٹ میں مندی بڑھتی چلی گئی۔
مارکیٹ میں کساد بازاری کی اتنی زیادہ وجوہات ہوسکتی ہیں کہ اس پر ہمیں ایک کتاب لکھنے کی ضرورت پیش آئے گی، مندرجہ بالا وجوہات کے ساتھ ساتھ منفی عناصر کا کردار بھی بے حد اہم ہوتا ہے۔
مصنوعی کساد بازاری
یہ صرف پاکستان کی بات نہیں بلکہ دیگر ممالک کی مارکیٹس میں بھی منفی عناصر کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ عناصر طلب اور رسد کے قانون کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔
طلب اور رسد کا قانون یہ کہتا ہے کہ آپ کسی چیز کی قلت پیدا کردیں، اس کی طلب بڑھ جائےگی جس کے نتیجے میں وہ چیز مہنگی ہوجائے گی۔ اسی طرح کسی چیز کی رسد بڑھا دیں تو اسے آسمان سے زمین پر گرایا جاسکتا ہے۔
آسان الفاظ میں منافع خور مافیا نے پاکستان میں چینی اور آٹے کو ذخیرہ کرکے اس کی قیمت بڑھا دی جس سے وہ چیزیں مہنگی ہو گئیں۔ اسے مصنوعی مہنگائی بھی کہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں یہ اصول کیسے کام کرتا ہے؟ اسٹاک مارکیٹ میں منفی عناصر یہ کرتے ہیں کہ پہلے بھاری مقدار میں سرمایہ لگاتے چلے جاتے ہیں اور مارکیٹ اوپر ہوتی چلی جاتی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں ہم پیسہ لگائیں گے تو ہمارا فائدہ ہوگا، وہ بھی دھڑا دھڑ پیسہ لگانا شروع کردیتے ہیں۔
پھر یہ ہوتا ہے کہ جس مافیا نے پیسہ لگانا شروع کیا تھا، وہ تھوڑا سا ہاتھ روک کر صورتحال کا جائزہ لیتا ہے۔ کیا مارکیٹ اوپر جا رہی ہے؟ اگر ہاں، تو اس کا مطلب ہے کہ لوگ بھاری مقدار میں سرمایہ لگا رہے ہیں۔ نرخ بڑھ رہے ہیں۔
بھاری مقدار میں پیسہ لگانے والی بڑی بڑی مچھلیاں پوری مارکیٹ کو مٹھی میں بند کر لیتی ہیں اور آپ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ انہوں نے جتنا سرمایہ لگایا تھا، وہ اچانک واپس کھینچ لیتے ہیں جس سے مارکیٹ بیٹھ جاتی ہے۔ یہ مصنوعی کساد بازاری کہلاتی ہے!