آڈیو لیکس میں اصل انکشافات کیا ہیں ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

یہ ہیکر نہیں ہے۔ سب سے پہلے تو یہ غلط بیانی نہیں کرنی چاہیے کہ ہیکرز نے آڈیو جاری کر دی۔ یہ کسی ہیکر کا کام نہیں۔ ہیکر ایسا نہیں کرتا کہ اپنا ہیک شدہ مواد منتخب اور مخصوص صحافیوں سے شیئر کرے۔ عمران خان کی جو آڈیو لیکس آ رہی ہیں، اس کی تفصیل چند صحافیوں کو پہلے سے پتہ تھی اور وہ لکھ بھی چکے تھے۔
انصار عباسی صاحب تین ماہ پہلے عمران خان کی آڈیو لیکس کی خبر اور متن کا اشارہ دے چکے تھے۔ آج جب سائفر لیک پارٹ ٹو آیا تو حامد میر نے اپنے چینل پر صاف کہا کہ اس کا تیسرا حصہ بھی آئے گا۔ انہوں نے اس کے متن کی طرف اشارہ بھی کیا اور بتایا کہ تب پتہ چلے گاکہ شاہ محمود قریشی خاموش رہے، مگر اسد عمر نے خان صاحب کو سمجھانے کی اپنی سی کوشش کی۔ ایک چینل پر ثنا بچہ بھی یہی کہہ رہی تھیں کہ ہمیں معلوم ہے کہ تیسرا پارٹ بھی آئے گا۔
سوال یہ ہے کہ ان اینکرز کو کیسے معلوم کہ تیسرا پارٹ بھی آئے گا ؟ حامد میرصاحب کے بیان سے تو صاف لگا جیسے انہوں نے تیسرا پارٹ پہلے سے سن رکھا ہے۔ اگر ایسا ہے تو وہ کون ہے جس نے انہیں یہ سب سنایا؟ کوئی خفیہ ہیکر تو ایسی بے وقوفی نہیں کر سکتا ۔اسے کیا پڑی ہے کہ اپنی ایکسکلیوسو آڈیو کسی کو سنائے اور اپنی شناخت بھی خطرے میں ڈالے۔یہ ظاہر ہے ان لوگوں کا کام ہے جن کے پاس اختیار اور قوت ہیں اور وہ ایسی چیزیں ٹیپ کرتے رہتے ہیں۔
قصور وار کون ؟
لیکس اصلاً آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ یہ جس کسی نے ٹیپ کئے، اس نے قوانین کی خلاف ورزی کی بلکہ قانون کی دھجیاں اڑا دیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ جن محکموں اور لوگوں کا کام وزیراعظم ہاﺅس کو محفوظ بنانا تھا، وہ بری طرح ناکام ہوئے۔ ایسی اہم ترین جگہوں کو ہر روز چیک اور کلیئر کیا جاتا ہے۔ اس لئے اور کچھ ہو نہ ہو، ان اہلکاروں کے خلاف تو کارروائی ہونی چاہیے جن کی ذمہ داری پرائم منسٹر ہاﺅس کو کلیئر کرنا تھا۔
تصور کریں کہ وزیراعظم ہاﺅس جہاں اہم ترین میٹنگز ہوتی ہیں، وہاں کی آڈیوز اگر بھارت، اسرائیل ، امریکہ یا دیگر ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس پہنچ جائیں تو ہماری پالیسیوں، ہمارے کلاسیفائیڈ رازوں اور اندرونی معاملات کا کیا رہ جائے گا؟
ہیکر والی بات اس لئے بھی غلط ہے کہ ہیکر تو وہ مواد ہیک کرتا ہو جو کسی نے خفیہ طور پر کہیں محفوظ کر رکھا ہو۔ وزیراعظم ہاﺅس میں تو ریکارڈنگ ڈیوائسز ہونی ہی نہیں چاہیے، یہ مواد کسی بھی طرح، کسی بھی طریقے سے تیار نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس لئے اصل سوال تو یہ ہے کہ کس نے یہ ریکارڈنگز کیں اور وہ کیوں انہیں لیک کر رہا ہے؟
پرنسپل سیکرٹری کا کردار
دونوں طرح کی آڈیوز یعنی شہباز شریف اور ڈاکٹر توقیر شاہ وغیرہ اور عمران خان اعظم خان وغیرہ میں سب سے منفی اور قابل اعتراض کردار پرنسپل سیکرٹری کا نظر آیا۔ سائفر پارٹ ون اور ٹو میں صاف پتہ چل رہا ہے کہ پرنسپل سیکرٹری اعظم خان دراصل عمران خان یا تحریک انصاف کے ایک سیاسی کارکن اور پولیٹیکل اسسٹنٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ صرف عمران خان کے سیاسی فائدے کے لئے رولز اینڈ ریگولیشن نہ صرف توڑنے بلکہ ان میں لوپ ہول نکالنے اور حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرنے کے خواہاں ہیں۔ صرف اس لئے کہ بڑا صاحب (وزیراعظم )خوش ہوجائے۔ یہ نہایت افسوس ناک ہے۔
کم وبیش یہی کردار ڈاکٹر توقیر شاہ کا ہے۔ وہ آل شریف کے ساتھ طویل عرصے سے ہیں پہلے پنجاب میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کے ساتھ مختلف ادوار میں رہے، اب مرکز میں وزیراعظم کے ساتھ آ گئے۔ ماڈل ٹاﺅن سانحہ میں بھی ڈاکٹر توقیر شاہ کی طرف انگلی اٹھائی گئی تھی، اسی لئے اس واقعے کے کچھ ہی عرصہ بعد انہیں خاصے عرصے کے لئے باہر کسی پوسٹ پر بھیج دیا گیا تھا۔
ڈاکٹر توقیر شاہ کو چاہیے تھا کہ وہ مریم نواز کو اپنے طور پر صاف جواب دے دیتے ۔ مریم نواز کے داماد کی ہاﺅسنگ سوسائٹی کے لئے گرڈ سٹیشن کی منظوری دلوانا پرنسپل سیکرٹری کا کام نہیں ، اسے نمبرٹانکنے کے لئے ایسا کرنے کی قطعی ضرورت نہیں تھی۔ اسی طرح ایک بے قاعدہ کام کو نہ کرنے کی اصل وجہ توقیر شاہ یہ بیان کر رہے کہ چونکہ یہ کابینہ میں آئے گا، اس لئے شور مچے گا۔ یعنی اگر کابینہ یا ای سی سی میں آنے والا معاملہ نہ ہوتا تو پھر بے قاعدگی کے باوجود کام کر دیا جاتا۔ یہ ہمارے بیوروکریٹس کے مائنڈ سیٹ کو ظاہر کر رہا ہے۔
سائفر پارٹ ون میں اعظم خان نہایت دیدہ دلیری سے کہہ رہے ہیں کہ منٹس بنانا تو میرے ہاتھ میں ہے، میں اپنی مرضی کے منٹس بنا لوں گا، یعنی اپنی مرضی سے وہ من پسند رخ دے دوں گا جو عمران خان چاہتے ہیں۔ کیا یہ پرنسپل سیکرٹری کے کرنے کا کام ہے؟
اعظم خان ایک سرکاری ملازم ہیں، سینئر بیوروکریٹ۔ سرکار سے انہیں بہت معقول معاوضہ اور دیگر سہولتیں ملتی ہیں، وہ سرکار سے پینشن بھی لیں گ۔، انہیں بطور سو ل سرونٹ پروفیشنل رویہ اپنانا چاہیے تھا۔ اس کے بجائے وہ تحریک انصاف کے پارٹی عہدے دار لگ رہے ہیں وہ بھی نچلی سطح کے، جو ہر حال میں اپنے صاحب کو خوش کرنا چاہتا ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ پرنسپل سیکرٹری کے حوالے سے جو طریقہ کار چل رہا ہے اسے بدلنا چاہیے۔ ہونا یہ چاہیے کہ اس کا ایک ٹینور ہو، سال یا دو سال ،اس کے بعد پرنسپل سیکرٹری تبدیل کر دیا جائے تاکہ وہ کسی سیاسی شخصیت یا خانوادے کا ایجنٹ نہ بن جائے ۔پرنسپل سیکرٹری کے انتخاب میں وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار بھی ختم ہونا چاہیے۔ ایک خاص معیار اور اسی حساب سے فہرست ہو، جس میں ترتیب وار آنے والے لوگ پرنسپل سیکرٹری ہوں۔ وزیراعظم ان سے کام چلائے ،زیادہ سے زیادہ کسی ایک آدھ سے معذرت کر لے ۔
حکمرانوں کے تضادات
ایک اور اہم چیز نظر آ رہی ہے وہ ہمارے سیاستدانوں اور لیڈروں کا دوغلا رویہ ہے۔ شہباز شریف اور مریم نواز شریف کی گفتگو میں مریم نواز کے تضادات صاف نظر آ رہے ہیں۔ وہ جلسوں میں پٹرول کی قیمت بڑھانے کے خلاف تقریریں کرتی رہیں، ٹوئٹ اور بیانات بھی تند وتیز دیتی تھیں اور علیحدگی میں شہباز شریف کو پٹرول کی قیمت بڑھانے کا مشورہ دے رہی ہیں۔ اس سے زیادہ تضاد اور دوغلا پن اور کیا ہوگا؟
شہباز شریف بھی توقیر شاہ سے گفتگو میں مریم نواز کے حوالے سے دبے دبے نظر آئے، ان میں یا توقیر شاہ کسی میں اتنی ہمت ہی نہیں تھی کہ ایک صریحاً غلط فرمائش پر مریم نواز شریف کو منع کر سکیں۔ آخر میں توقیر شاہ نے یہ راہ نکالی کہ اسحاق ڈار پر یہ ذمہ داری ڈالی جائے، پہلے بھی وہ ہوشیاری سے اسی طرح کا ایک معاملہ نمٹا چکے ہیں۔ یہ حکمرانوں کی کمزوری اور مریم نواز جیسے غیر منتخب کردار کی قوت ظاہر کررہا ہے۔
عمران خان کی ان آڈیوز سے یہ تو صاف ظاہر ہوگیا کہ وہ سائفر والے معاملے کو استعمال کرنا یعنی کھیلنا چاہتے تھے۔ ان کے حامی یہ دلیل دے رہے ہیں کہ وہ کرکٹر ہیں اس لئے کھیلنے والی اصطلاح استعمال کر لیتے ہیں۔ یہ کمزور بات ہے۔ سائفر لیک پارٹ ٹو سے یہ تو صاف پتہ چل رہا ہے کہ عمران خان نے اس کارڈ کو اچھے سے استعمال کیا۔ اسد عمر کے اعتراض پر انہوں نے صاف جواب دیا کہ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ پاکستانی سفیر نے یہ کوئی خصوصی خط نہیں بھیجا، دراصل اس نے امریکی سفارتکار سے اپنی ملاقات کے نوٹس یا ٹرانسکرپشن اس سائفر میں لکھ کر بھیجی کہ ملاقات میں کیا سوال جواب، کیا باتیں ہوئیں۔ خان صاحب نے دانستہ اسے خط کانام دیا کہ عوامی سطح پر خط کے لفظ سے کھیلنا آسان ہے ۔
یہ بات بڑی واضح ہے کہ ان دونوں لیکس کی آڈیو میں خان صاحب مشتعل نہیں ہیں۔ اگر وہ سمجھتے کہ یہ غیر ملکی سازش ہے، امریکہ ان کی حکومت الٹا رہا ہے تو انہیں امریکہ پر غصہ ہونا چاہیے۔، اس کے بجائے وہ ٹھنڈے دل ودماغ سے غیر جذباتی ہو کر چیزوں کو دیکھ رہے اور حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ انہیں اندازہ تھا کہ سائفر آٹھ یا نومارچ کوآیا جبکہ یہ نکتہ ان کے ذہن میں تھا کہ اتفاق سے امریکی سفارت کار کی ملاقات سات مارچ ہوئی تھی ۔ عمران خان نے اسی سے یہ پوائنٹ بنایا کہ اس ملاقات کے اگلے روز تحریک عدم اعتماد آئی ۔
یہ نکتہ بھی واضح ہے کہ خان صاحب سپیشل سیکرٹ ایکٹ سے اچھی طرح باخبر تھے، بار بار کہتے رہے کہ امریکہ کا نام نہیں آنا چاہیے۔ انہوں نے ابتدا میں خود بھی احتیاط برتی، ستائیس مارچ کے جلسے میں قطعی طور پر کچھ ایسا لیک نہیں کیا جو سپیشل سیکرٹ ایکٹ کے خلاف جاتا ہو۔ ان لیکس کے بعد عمران خان نے یہ موقف اپنایا کہ اچھا ہوا شہباز حکومت نے اسے لیک کیا اور یوں سائفر کا آنا کنفرم ہوگیا۔ یہ بات عجیب وغریب کہی کیونکہ سائفر کا آنا تو کنفرم ہی ہے ، البتہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے پیچھے امریکی سازش کے ہونے پر اعتراض اور تحفظات ہیں اداروں کو اور اپوزیشن جماعتوں کو۔ اگر سائفر کا آنا کنفرم نہ ہوتا تو نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس کے بعد امریکی حکومت کواحتجاج کیوں کیا گیاتھا؟ ظاہر ہے اس کی وجہ یہی سائفر ہی تھا، ورنہ امریکہ نے کو ن سا میکڈونلڈ کے برگرز میں جاسوسی کی ڈیوائس لگا کر بھیج دی تھی۔
ان لیکس کوکرنے والا جو بھی ہے، اس کا اپنا ایجنڈا ہوگا، ہمارے جیسوں کو البتہ یہ سمجھنا چاہیے کہ چیزیں جس طرح دور سے نظر آتی ہیں، ویسی ہوتی نہیں۔ اس لئے ٹھنڈے دل ودماغ سے یہ سب دیکھنا، سوچنا چاہیے۔
طویل تجربے کے بعد یہ سمجھ آیا ہے کہ دنیا میں دو ہی طرح کے لوگ ہیں، وہ جو دوسروں کو استعمال کرتے ہیں اور وہ جو ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہوتے ہیں۔ تو بھائی لوگو اگر اتنے اسمارٹ نہیں بن سکتے کہ دوسروں کو استعمال کر سکو تو کم از کم ٹشو پیپر تو نہ بنو۔ آنکھیں کھلی رکھو۔ آڈیو لیکس کا تین حرفی نچوڑ یہی ہے …. آنکھیں کھلی رکھو۔

Related Posts