ملک میں آبی قلت، کیاپاکستان پانی کیلئے جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملک میں آبی قلت، کیاپاکستان پانی کیلئے جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے؟
ملک میں آبی قلت، کیاپاکستان پانی کیلئے جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے؟

پاکستان میں درجہ حرارت میں بڑھنے اور برف پگھلنے سے پانی کی قلت میں اضافے کے خدشات نے سراٹھالیا ہے،گزشتہ برس کے مقابلے میں شمالی علاقہ جات سے انڈس واٹر سسٹم میں پانی کا بہائو 22 فیصد کم ہوگیا ہے۔

پانی کا ذخیرہ
پاکستان اپنے قیام کے وقت 1947ء میں آبی وسائل سے مالامال تھا اور یہاں پانی کی دستیابی پانچ ہزار کیوبک میٹر تھی جو اب خطرناک حد تک کم ہو کر صرف ایک ہزار کیوسک میٹر تک پہنچ چکی ہے لیکن اب انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کا کہنا ہے کہ ملک بھر کے ڈیموں میں پانی کا سات سے آٹھ روز کا ذخیرہ رہ گیا ہے،ارسا کے ترجمان خالد رانا کا کہنا ہے کہ پانی کی دستیابی سے متعلق صورتحال تین چار روز میں واضح ہوگی۔ ڈیموں میں دس لاکھ ایکڑ فٹ سے زیادہ پانی موجود ہے جو سات سے آٹھ روز کیلئے کافی ہے اور آئندہ پانی کی دستیابی کا انحصار برف پگھلنے پر ہے جبکہ اسکردو میں درجۂ حرارت میں تبدیلیاں آرہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت سکردو میں درجہ حرارت 11 سے 19 ڈگری سنٹی گریڈ تک ہے جو گزشتہ سال ان دنوں میں پندرہ سے 23 ڈگری سنٹی گریڈ تھا۔ اس طرح برف پگھلنے کی رفتار گزشتہ سال کی نسبت کم رہے گی۔

پانی کی تقسیم
ارسا حکام کے مطابق دریاؤں میں پانی کی کمی کے باعث کچھ دن پانی کی کمی کا سامنا رہاتاہم پانی کی تقسیم میں کسی صوبے سے زیادتی نہیں ہورہی، سندھ کو کپاس کی کاشت کے وقت پنجاب سے زیادہ پانی فراہم کیا۔ حکام کے مطابق سندھ کو اب تک صرف 4 فیصد پانی کی کمی ہوئی، اسی عرصے میں پنجاب کو 16 فیصد پانی کی کمی رہی، جنوبی پنجاب کو کپاس کی کاشت کے لیے پانی فراہم کیا جارہا ہے۔ ارسا کا کہنا ہے تونسہ پنجند لنک کینال پر کوئی پاور ہاؤس منصوبہ زیر غور نہیں، سندھ پانی کے غلط اعدادوشمار پیش کررہا ہے۔ارسا کے مطابق سندھ بلوچستان کے حصے کا پانی بھی خود استعمال کررہا ہے، سندھ کو 7 لاکھ ایکڑ فیٹ پانی منگلہ ڈیم سے بھی فراہم کیا، سندھ حکومت کی جانب سے تکنیکی مسئلے کو سیاسی بنایا جارہا ہے۔

پانی کاضیاع
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا قابل استعمال 60 فیصد پانی سمندر میں گر کر ضائع ہورہا ہے، جس کی وجہ سے ملک میں ڈیموں کی کمی ہے۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے ڈائریکٹر آپریشنز محمد خالد ادریس رانا کا کہنا ہے کہ شمالی علاقہ جات میں درجہ حرارت میں کمی بالخصوص اسکردو میں درجہ حرارت میں کمی سے دریائوں میں پانی کا بہائو کم ہوا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ذخیرہ کیا گیا پانی صرف 33 دن کے لیے کافی ہے، حالانکہ اسے 100 روز تک اضافے کی ضرورت ہے تاکہ زرعی اور صنعتی مقاصد کے لیے پانی کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔

خشک سالی اور فصلوں کو نقصان
واپڈا کے ماہرین کی مرتب کردہ ایک رپورٹ میں 2025ء تک ملک کے خشک سالی کا شکار ہونے کا عندیہ دیا جا چکا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق خشک سالی کا آغاز بلوچستان سے ہوگا جہاں لوگوں کو پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں ہوگا جبکہ ارسا نے ملک میں پانی کی قلت کے باعث خریف کی فصلوں کے متاثر ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے تاہم ابھی یہ بتانا قبل ازوقت ہوگا کہ ملک میں خریف کی فصل کو پانی کی کتنی قلت ہوسکتی ہے۔

آئی ایم ایف کا انتباہ
گزشتہ سال دسمبر میں آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے حوالے سے جاری کردہ رپورٹ میں بھارتی آبی جارحیت کے نتیجہ میں پاکستان کیلئے پیدا ہونیوالے آبی قلت کے بحران کی نشاندہی کی گئی اور بتایا گیا کہ پاکستان آبی قلت کا شکار ممالک میں تیسرے نمبر پر آچکا ہے جس کے باعث یہ ایتھوپیا سے بھی زیادہ خشک سالی اور بدحالی کا شکار ہو سکتا ہے کیونکہ خشک سالی زرعی معیشت کیلئے انتہائی مہلک ہے۔اور اگر مناسب منصوبہ بندی نہ کی گئی تو 2025ء تک ملک کو آبی خشک سالی اور قحط کا سامنا ہو سکتا ہے۔

پانی کیلئے جنگ کے خدشات
پاکستان میں مسلسل20سال سے دیامیر بھاشا ڈیم اور نیلم جہلم کی بازگشت سنی جا رہی ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی مکمل نہیں ہو پا رہا، کالا باغ ڈیم سیاست کی نذر ہو گیا جس میں صوبوں کے مابین بداعتمادی کی فضا قائم ہے اور یہ فضا چھوٹے صوبوں کے مؤقف کی پذیرائی نہ ہونے سے مزید مکدر ہو رہی ہے۔ پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے اور پانی، بجلی کے منصوبے تاخیری زنجیر کے ساتھ لٹکے ہوئے ہیں۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈیمز بنائے جائیں اورپانی کا ذخیرہ کرنے کے تمام اقدامات کئے جائیں اور بھارت کودریائے سندھ کے معاہدے کی خلاف ورزی سے روکا جائے اورملکی زرعی معیشت کو بچانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں ، بصورتِ دیگر بڑھتا ہواآبی بحران پاکستان سمیت پورے خطے کو جنگ کی آگ میں جھونک سکتا ہے۔

Related Posts