امریکی قانون سازوں نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر پھر تشویش ظاہر کردی

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مقبوضہ کشمیر میں 74 روزہ کرفیو کے خلاف بھارتی عوام بھی سراپا احتجاج
مقبوضہ کشمیر میں 74 روزہ کرفیو کے خلاف بھارتی عوام بھی سراپا احتجاج

واشنگٹن:امریکا نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر ایک بار پھر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارت سے وادی میں حالات معمول پر لانے کا مطالبہ کردیا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق امریکی کانگریس کی خارجہ امور کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں بیشتر قانون سازوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات پر سوالات اٹھائے۔جنوبی ایشیا کے لیے اسسٹنٹ سیکریٹری خارجہ ایلس ویلز نے کہا کہ بھارت کے وادی کشمیر میں اقدامات کے اثرات کے حوالے سے امریکا بدستور خدشات کا شکار ہے۔

مزید پڑھیں : کشمیر کے حوالے سے اپنے الفاظ واپس نہیں لوں گا، ملائیشین وزیراعظم کا اعلان

انہوں نے ذیلی کمیٹی کو بتایا کہ امریکا نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کرے اور انٹرنیٹ و موبائل فون سمیت تمام سروسز بحال کرے۔ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ امریکا کو کشمیر کے مرکزی سیاسی رہنماں سمیت شہریوں کی حراست اور مقامی و غیر ملکی میڈیا کی کوریج کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے پر بھی تشویش ہے۔

کمیٹی کی نمائندہ و معروف خاتون ساز الہان عمر نے کہا کہ کشمیر میں بھارت کے اقدامات، نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اسلام مخالف اقدامات کا ہی حصہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں حراستی کیمپس قائم کیے جانے کی بھی رپورٹس ہیں، آسام میں تقریبا 20 لاکھ افراد رجسٹریشن کے متنازع عمل میں اپنی بھارتی شہریت ثابت نہیں کر پائے ہیں جن سے متعلق مودی کی حکومت کہہ رہی ہے کہ غیر قانونی مہاجر ملک میں نہیں رہ سکتے۔

یہ بھی پڑھیں : بھارت کشمیر کے معاملے پر عالمی برادری میں بے نقاب ہو رہا ہے،وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی

الہان عمر نے میانمار میں مسلمانوں کے خلاف خونی مہم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسی طرح روہنگیا کی نسل کشی کا آغاز ہوا۔انہوں نے کمیٹی اراکین کے سامنے سوال اٹھایا کہ ہم کب تک بھارت سے متعلق خاموش رہیں گے؟ کیا ہمیں آسام کے مسلمانوں کو ان حراستی کیمپوں میں ڈالے جانے کا انتظار ہے؟اس موقع پر ایلس ویلز نے کہا کہ ہم نے اپنی تشویش ظاہر کی ہے لیکن آسام میں شہریت کی رجسٹریشن کا عمل عدالت کے حکم پر ہوا جس کے خلاف اپیل کی گئی ہے۔

Related Posts