کراچی: نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ حکومت نے نئے بجٹ میں کاروباری برادری کو جہاں ایک طرف مراعات دی ہیں تو دوسری طرف مشکلات میں بھی اضافہ کیا ہے۔
وزیر خزانہ نے ٹیکس تنازعات میں اسسٹنٹ کمشنر کو گرفتاری کے اختیارات واپس لینے کا عندیہ دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اختیارات وزیر خزانہ کی سربراہی میں میں تین رکنی کمیٹی کے پاس ہوں گے۔
تاہم یہ بھی بزنس مینوں پر لٹکتی تلوار ہے جو ناقابل قبول ہے کیونکہ ٹیکس تنازعات روزمرہ کا معمول ہیں۔ بزنس کمیونٹی کو موقع دیا جائے کہ وہ یکسوئی سے پیداوار برآمدات اور روزگار بڑھانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
کسٹمز ایکٹ کے سیکشن 156 میں تازہ ترمیم جس کے ذریعے امپورٹرز کو پابند کیا گیا ہے کہ ان کے درآمدی کنٹینرز میں مال کے ہمراہ انوائس موجود ہونا لازمی ہے ورنہ ان پر جرمانے عائد کئے جائینگے اور رجسٹریشن معطل کی جا سکے گی غیر ضروری اور ناقابل عمل ہے۔
غیر رجسٹرڈ کاروباری طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے ترغیبات اور الیکٹرونک ڈیٹا کا استعمال کیا جائے پوائنٹ آف سیل سسٹم اس کی اچھی مثال ہے بجلی و گیس کے بل اور پراپرٹی کے لین دین کا ریکارڈ بھی ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال مراعات کے باوجود مجموعی سرمایہ کاری میں اضافہ کے بجائے معمولی کمی ہوئی ہے مگر اس سال صورتحال کو بہتر بنانا ہو گا۔
برآمدات کے مقابلہ میں درآمدات مسلسل بڑھ رہی ہیں جو ایک طرف تو اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ کا ثبوت ہے تو دوسری طرف اس سے تجارتی خسارہ بھی بڑھتا ہے جس کا واحد حل ایکسپورٹ میں اضافہ ہے، جس کے لیے بجلی اور گیس کی مسلسل فراہمی اور ان کی قیمتوں میں حریف ممالک کے ساتھ مسابقت ہے۔
میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس سے امپورٹ بل بڑھ جائے گا تاہم اگر امریکہ نے ایران سے پابندیاں ہٹا لیں تو عالمی منڈی میں تیل کی قیمت کم ہو جائے گی جس کا امکان موجود ہے۔
مزید پڑھیں: ایف پی سی سی آئی میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کا انعقاد