ایف پی سی سی آئی میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کا انعقاد

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کرا چی : ایف پی سی سی آئی کے صدر میاں ناصر حیات مگوں نے فیڈریشن ہاؤس کراچی میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم، وزیر خزانہ اور ایف بی آر کو بھیجا گیا ہمارے مجوزہ ٹیکس ماڈل سادہ اور منصفانہ تھا۔

چنیدہ ٹیکس نظام میں افراد اور ایسوسی ایشن آف پرسنز پر 10فیصد انکم ٹیکس، کمپنیوں پر 20فیصد انکم ٹیکس، 5 فیصد سیلز ٹیکس (برآمد کنندگان کے لئے صفر فیصد ٹیکس) تمام اشیاء پر کم شرح کسٹم ڈیوٹی (ایک باب، ایک شرح 5فیصد) جس میں مقامی صنعت کے لئے 15 سے 20فیصد ٹیرف تحفظ شامل ہو اور صرف لگژری اور مضر صحت مصنوعات پر ایف ای ڈی لگائی جا ئے۔

وزیر اعظم نے ایف بی آر کو ایف پی سی سی آئی کی تجاویز کی جانچ پڑتال کے لئے ہدایات دیں اور متفقہ اور جزوی طور پر متفقہ تجاویز کو سامنے لانے کہا لیکن ایف بی آر کے ذریعہ کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ وزیر خزانہ اور ایف بی آر کے ساتھ فالو اپ دو ملاقاتیں ہوئیں جس میں یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ ایف پی سی سی آئی کی طرف سے پیش کردہ ٹیکس ماڈل کے ساتھ بجٹ کی تجاویز پر بھی غور کیا جائے گا تاہم ایف پی سی سی آئی کی تجاویز کو بجٹ میں مکمل طور پر شامل نہیں کیا گیا ہے جبکہ بجٹ میں شامل اعلان کردہ کچھ اقدامات جزوی طور پر ایف پی سی سی آئی کی تجاویز کے عکاس ہیں۔

صدر ایف پی سی سی آئی نے نائب صدور ناصر خان، حنیف لاکھانی، اطہر سلطان چاؤلہ اور زکریا عثمان،سابق صدر ایف پی سی سی آئی اور کنوینر بجٹ کمیٹی ایف پی سی سی آئی کے ساتھ بجٹ میں سامنے آنے والے امور پر پر یس کا نفر نس میں تبادلہ خیال کیا۔

میاں ناصر حیات مگوں نے سیکشن 203 اے متعارف کرانے کی وجہ سے پیدا ہونے والے تباہ کن امور کی نو عیت کو اجاگر کیا اور یہ بھی کہا کہ سیکشن 192 اے کے ذریعہ اس سلسلے میں پہلے سے موجود قانونی آپشن کونظر انداز کیاجارہا ہے اور انکم ٹیکس امور میں گرفتار کرنے کی ناگزیر ضرورت کے حوالے سے ٹیکس نادہند گان کوپہلے سے موجود سیکشن کے تحت ڈیل کیا جا سکتا ہے۔

اسمگلنگ کی تعریف میں پرچون فروشوں کو شامل کرنے کے معاملے پرمیاں ناصر حیات مگوں نے کہا کہ اسمگل شدہ اشیا کی فراہمی کو نا ممکن بنا نے کے لیے حکومتی مشنری کو بہتر اور موثر انداز میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے بجائے اس کے کہ پرچون فروشوں کو انسپکشن ایجنسیو ں اور ایف بی آر کے رحم و کرم پر چھوڑدیا جا ئے۔

صدر ایف پی سی سی آئی نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی تجویز کردہ سیکشن127 کو بھی واپس لینے کا مطالبہ کیا جس کے تحت متنازعہ ٹیکس کی سو فیصدرقم جمع کروانے پر اپیل کا حق ملتا ہے۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے سیکشن 10 اے کے تحت منصفانہ مقدمے کی سماعت کے حق کے خلاف ہے جوہر شہری کو منصفانہ مقدمے کی سماعت اور فیئر ٹرائیل کے مستحق ہونے کی ضمانت دیتا ہے۔

انہوں نے انکم آرڈیننس کے شعبے میں سیکشن 140 کو ختم کرنے کی بھی تجویز پیش کی جس کے ذریعے ایف بی آر ٹیکس دہندگان کے بینک کھاتوں سے ابتدائی مرحلے کی متنازعہ رقم واپس لینے کا حقدار ہوگا جو منصفانہ مقدمہ اور فیئر ٹرائل کے حق کے خلا ف ہیں۔

میاں ناصر حیات مگوں نے بتایا کہ کنٹینر میں انوائس لسٹ کاساتھ نہ آنے کی وجہ سے جرمانے اور سامان ضبط کرنے کا نیا سیکشن سامان کی منظوری اور ٹیکسوں کی ادائیگی میں انسانی عمل دخل کو خارج کرنے کے جاری دعوؤں سے مطابقت نہیں رکھتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ انٹر نیشنل ٹر یڈ میں خریدوفروخت کے مذاکرات اور شپمنٹ کی مختلف منزلیں اور سامان کی ترسیل کئی ایک ملکوں سے شامل ہو سکتی ہے،اس برآمد کرنے کے طریقہ کار میں کنٹینرز میں انوائس ڈالنے کو اس طرح ممکن نہیں بنایا جا سکتا لہٰذا بجٹ میں اس تجویز کو واپس لیا جانا چاہئے۔ایف پی سی سی آئی نے یہ بھی تجو یز پیش کی کہ تیسری پارٹی کے ذریعہ ٹیکس آڈٹ کیا جا جاسکتاہے،جس کے تحت پہلے سے طے شدہ آڈٹ پیرامیٹرز اور طریقہ کار کے ساتھ شفافیت کو یقینی بنایا جاسکے اور کا روباری برا دری اور ایف بی آر کی تسلی کو یقینی بنایا جاسکے۔

صدر ایف پی سی سی آئی نے تجویز پیش کی کہ ایف ٹی او کے دفتر کو تھرڈ پارٹی ٹیکس آڈٹ تفویض کرنے پر غور کیا جاسکتا ہے کیونکہ ایف ٹی او ایک غیر جانبدار اور آئینی اداراہ ہے۔

نائب صدر ایف پی سی سی آئی ناصر خان نے مطالبہ کیا کہ اشیائے خوردونوش میں چھوٹ بحال کرنے کے لئے چھٹے اورآٹھویں شیڈول کا جائزہ لیا جائے، کیوں کہ مالی اقدامات سے غذائی افراط زر کو کم کرنا بھی موجودہ حکومت کا مقصد ہے۔

ناصر خان نے مزید کہا کہ مختلف صنعتی شعبوں میں پلانٹ اور مشینری کے سلسلے میں سیلز ٹیکس میں زیادتیوں کو ختم کیا جانا چاہئے اور پیداواری مقاصد کے لئے تمام پلانٹ اور مشینری کو سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جانا چاہئے۔ فاٹا اور پاٹا سے متعالقہ چھوٹ پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے ناصر خان نے کہا کہ چھوٹ کے طریقہ کار کو اس طرح تر تیب دیا جائے کہ چھوٹ والے سامان ٹیرف کے علاقے میں اسمگلنگ کا دوسرا ذریعہ نہ بن سکے۔ انہوں نے سیلزٹیکس ایکٹ کے سیکشن 8 بی پر مزید تبادلہ خیال کیا اور کہا کہ 100 فیصد ایڈجسٹمنٹ کو بلا امتیاز اجازت دی جانی چاہئے؛ جیسا کہ موجودہ طور پر یہ تجویز کیا گیا ہے کہ لیسٹڈ اور غیر لسٹڈ کمپنیوں کے لئے مخصوص اجازت دی جائے۔

اس سے قبل اس کی اجازت کچھ کمپنیوں اور مخصوص شعبوں کے لئے تھی،یہ غیر منصفانہ اور برابری کے اصولوں کے خلا ف ہے۔ انہوں نے خود کار استثنیٰ سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی صورت میں برآمدات میں آسانی کے لئے WeBOC اور نیشنل سنگل ونڈو میں بھی خودکار استثنیٰ کے اجراء کو بھی تجویز کیا۔قو می شنا ختی کارڈ کی شرط پر تبا دلہ خیال کرتے ہو ئے سابق صدر ایف پی سی سی آئی اور کنوینئر ایف پی سی سی آئی بجٹ کمیٹی،زکریا عثمان نے کہا کہ سی این آئی سی کی شرط پر فروخت کا فیصلہ حکومت کے لیے غیر فا ئدہ مند رہا ہے، جس کے نتیجے میں جعلی اور فلائینگ انوائس کلچر کو فروغ ملا ہے۔

مزید یہ کہ ممبر آپریشن ایف بی آر نے بتایا کہ اس شرط کی وجہ سے سیلز ٹیکس وصولی میں کمی دیکھنے میں آئی ہے، یہ ٹیکس کو وسعت دینے کا صحیح طریقہ نہیں ہے لہذا بلاامتیاز کاروباری سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے اس شر ط کو واپس لیا جانا چاہئے۔ایف پی سی سی آئی نے ود ہولڈنگ ٹیکس کے خاتمے کا مطا لبہ کیا ہے اور آمدنی پر انکم ٹیکس کا حامی ہے کیوں کہ اس وقت ایف بی آر کی بڑی ورک فورس ٹیکس نیٹ بڑھانے کے بجا ئے ود ہولڈنگ ٹیکس جمع کرتی ہیں۔

مزید پڑھیں:وزیراعلیٰ سندھ فنڈز کیلئے وفاق سے ناامید، بحریہ ٹاؤن پر نظر جمالیں

ایف پی سی سی آئی نے ایف بی آر سے پرزور مطالبہ کیا کہ وہ ڈرافٹ ایس آر اوز میں تجویز کردہ اضافی کسٹم ڈیوٹی، ریگولیٹری ڈیوٹی، وغیرہ کے ڈرافٹ فہرست شیئر کرے، تاکہ ان کے اجراء سے پہلے ہی عدم مساوات کو دیکھا جاسکے۔ میاں ناصر حیات مگوں نے کہا کہ موجودہ ٹیکس کا نظام آئینی تقاضوں کی نفی کرتا ہے، اس کے تحت ٹیکس کے عدالتی کام کو آزاد اور ٹیکس وصول کرنے والی مشینری سے الگ ہونا ہوگا تاکہ آئینی ذمہ داری کی تعمیل ہو۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ایف پی سی سی آئی نے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا ہے کہ ایف بی آر کے ذریعہ کئے جانے والے ٹیکسوں کے معاملات میں آئین کی مسلسل خلاف ورزی کا نوٹس لیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 48 کے 12 ویں شیڈول کے حصہ دوم میں مینوفیکچرنگ میں استعمال ہونے والے خام مال کو شامل نہ کرنے کی وجہ سے پچھلے سال سے چلی آنے والی بے ضابطگیوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے، جس کے حل کو بجٹ 2021-22 میں یقینی طور پرشامل کیا جانا چاہئے۔