علماءکرام کا مساجد کھولنے اور باجماعت نماز شروع کرنے کا اعلان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

WHO issue guidelines for Ramazan

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی :تمام مکاتب فکر کے علماءکرام نے لاک ڈاؤن کا اطلاق مساجد پرنہ ہونے، تمام مساجد کھولنے اور ان میں باجماعت نماز شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے اورکہاہے کہ لاک ڈاؤن کا مساجد پر کوئی اطلاق نہیں ہوگا،مساجد میں جمعہ کی نماز اور رمضان المبارک میں تراویح باجماعت ہوگی ، کورونا وائر س کے سلسلے میں تمام تحفظات کا خیال رکھا جائے گا اور احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں گی۔

اس حوالے سے ایک بارہ رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے، یہ اعلان وفاق المدارس العربیتہ پاکستان کے سربراہ مولانا مفتی تقی عثمانی،تنظیم المدارس پاکستان کے سربراہ، رویت ہلال کمیٹیی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمان نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔

اس موقع پر ان کے ہمراہ جمعیت علماءپاکستان کے شاہ اویس نورانی، جے یو آئی کے مولانا راشد سومرو،جماعت اسلامی محمد حسین محنتی ،مولانا حافظ محمد سلفی،مولانا یوسف قصوری،قای عثمان،مولانا اعجاز مصطفی اور دیگر علماءکرام بھی کراچی پریس کلب میں موجود تھے۔

مولانا مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ جامعہ دار العلوم کراچی میں اتحاد تنظیماتِ مدارس دینیہ کے زیر اہتمام تمام مکاتبِ فکر کے علماء کا ایک اجتماع موجودہ وبائی صورت حال پر غور کرنے کیلئے منعقد ہوا، جس میں جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان ، جماعتِ اسلامی ، تنظیمِ اسلامی، جمعیت علماء اسلام (س) ، عالمی مجلس تحفّظ ختمِ نبوت ، جمعیت اشاع آ التوحید والسنہ، مرکزی جمعیت اہلِ حدیث،جماعت غرباء اہلِ حدیث وغیرہ کے نمائندہ علماء کرام نے شرکت کی۔

اس موقع پر ٹیلیفون کے ذریعے جے یوآئی کے قائد مولانا فضل الرحمن ، امیر جمعیت علماء اسلام ، مولانا ساجد میر ،امیر مرکزی جمعیت اہلِ حدیث، جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ اوروفاق المدارس پاکستان کے ناظم اعلی قاری محمد حنیف جالندھری نے بھی فون پر اجتماع سے خطاب کیااور منظور شدہ اعلامیہ کی تاکید کی ہے۔

مفتی تقی عثمانی نے کہاکہ ایک مسلمان کے لئے رمضان میں باجماعت نماز ضروری ہے، احتیاطی تدابیر کے ساتھ مساجد کھلی رہیں گی، مساجد میں 5 لوگوں کی اجازت پر عمل نہیں ہورہا، بیمار اور تیمادار گھروں پر نماز ادا کریں۔

انہوں نے کہا کہ مساجد سے قالین ہٹادیے جائیں اور سینیٹائیزر کی دستیابی یقینی بنائی جائے، تمام افراد وضو گھر سے کرکے اور ماسک پہن کر مسجدوں میں آئیں،نماز کے بعد لوگ ہجوم بنانے کے بجائے احتیاط کریں، مساجد میں گرفتاریاں نہ کی جائیں اور گرفتار لوگوں کو فوری رہا کیا جائے۔

مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ نماز، تراویح، اعتکاف سمیت تمام عبادات کا سلسلہ جاری رہےگا اور سماجی فاصلوں پر بھی عملدرآمد ہوگا،پولیس نےبہت سی زیادتیاں کی ہیں ان کی مذمت کرتےہیں، مساجدکےکھلےرہنےمیں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے۔

ایک امام صاحب اب بھی حوالات میں ہے، امام کا کام مسجد میں آنے والوں کو روکنا نہیں ہوتا نماز پڑھانا ہوتا ہے، نماز،تراویح اورنماز جمعہ باجماعت ہوں گی۔مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ اعلامیہ کی تائید و توثیق کرتاہوں، لاک ڈاؤن کااطلاق مساجدپرنہیں ہوگا تاہم سماجی فاصلےکےمتعلق ڈاکٹروں کی ہدایت پرعمل کیاجائے گا۔

تراویح، نماز اور دیگرعبادات کاسلسلہ جاری رہےگا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو آنکھیں اورکان کھولنےچاہیے، وزیراعظم سےکہتاہوں دینی و مدارس کے یوٹیلٹی بل معاف کیےجائیں۔مفتی تقی عثمانی نے مزید کہاکہ کورونا وائرس کا مسلسل پھیلاواور تباہ کاری جہاں خالقِ کائنات کی قدرت کا مظاہرہ ہے۔

وہاں نسلِ انسانی کی آزمائش اور ابتلاء بھی ہے کہ وہ اپنی تمام تر ترقی اور عروج کے باوجود قدرتِ خداوندی کے سامنے بے بس ہے اس لئے سب سے پہلے تو اپنی عاجزی کا اظہار اور کائنات کے خالق کی برتری کی عظمت کا اعتراف ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

ایک مسلمان کیلئے ان حالات میں کرنے کا سب سے بڑا کام گناہوں سے توبہ واستغفار، اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور رسولِ خدا کی سیرت و سنت کے مطابق اپنے طرزِ زندگی کو بدلنا ہے۔

وباء سے متاثر ہونے والے اور لاک ڈاؤن سے بے روزگار ہونے والے سب لوگوں کی حتی الوسع مدد ہماری قومی ذمہ داری ہےاور حکومت یا تنظیمیں یا افراد جو اس ذمہ داری کو پورا کر رہے ہیں وہ قابلِ تعریف ہیں، اور اس کام کو مزید منظم کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے ساتھ دعائوں کا اہتمام اور اللہ رب العزت سے اس وبا کو ٹال دینے کی مسلسل التجا ہر شخص کو کرتے رہنی چاہئے اور ایک دوسرے کو اس کی تلقین بھی کرنی چاہئے۔ نیز حکومت یا اطبائ کی طرف سے جو احتیاطی ہدایات دی جارہی ہیں ، ان پر سب کو عمل کرنا ضروری ہے۔

احتیاطی تدابیر میں میل جول کم کرنا ،بلاضرورت اجتماع سے منع کرنا بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہےجس کی سب کو پابندی کرنی چاہئے مگر لازمی سروسز میں کام کو معطل نہیں کیا جاسکتا اسی لئے ضروری کام کو جاری رکھنے کا اہتمام کیا جارہا ہے۔

مثلاً سپر مارکیٹ، بینک اور ضروریات کی تقسیم کی ٹیم کو کام کی اجازت ہے، لیکن اس میں احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں ہورہا، اور کثیر تعداد میں لوگوں کا ہجوم وہاں جمع رہتا ہے، اس میں لوگوں کو مناسب فاصلے کے ساتھ ضروریات پوری کرنے کا اہتمام کرایا جائے۔

اسی طرح ایک مسلمان کیلئے مسجدوں میں نماز یا جماعت اور جمعہ کا اجتماع ایک اہم ضرورت ہے، خاص طور پر رمضان میں مسجد کی حاضری اور نماز با جماعت نہ صرف ایک ضرورت ہے، بلکہ اس آزمائش کے موقع پر خاص طور سے رجوع الی اللہ ہی وبا کو دور کرنے کا ایک اہم سبب ہوسکتا ہے، اس کو حتی الامکان احتیاطی تدابیر کے ساتھ جاری رکھنا بھی ضروری ہے۔

احتیاطی تدابیر کا دائرہ اور دورانیہ ہر جگہ، موقع، محل، تقاضائے وقت اور وہاں کی ضروریات کے مطابق اختیار کیا جانا چاہئے۔

علما کرام کا کہنا تھا کہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ مساجد کھلی رہیں گی ان میں پنج وقتہ نماز باجماعت ، نمازِ جمعہ ہوگی، تین یا پانچ افراد کی پابندی قابلِ عمل ثابت نہیں ہورہی ہے ،جو لوگ بیمار ہیں، یا وائرس سے متاثر ہیں ، یا انکی عیادت پر مامور ہیں، وہ مسجد میں نہ آئیں، معمّر حضرات کے بارے میں چونکہ اطبائ کی رائے یہ ہے کہ قوتِ مدافعت کمزور ہونے کی بناء پر وبا کا نشانہ بن سکتے ہیں۔

اس لئے وہ اپنے آپ کو مسجد میں آنے سے معذور سمجھیں،مسجدوں کے دروازے پر حتی الامکان سینی ٹائزرز لگانے کا اہتمام کیا جائے، اور اس کیلئے محلّے کے اہلِ خیر اس کا انتظام اپنی شرعی ذمہ داری سمجھ کر کریں۔

مقتدی حضرات ہاتھ صابن سے دھو کراور حتی الامکان ماسک پہن کرمسجد آئیں، سنتیں بھی تمام لوگ گھر سے پڑھکر آئیں، اور باقی سنتیں اور نفلیں گھروں میں جا کر پڑھیں۔ نمازِ جمعہ میں اردو تقریر بند کردی جائے۔

اگر ضرورت ہو تو صرف پانچ منٹ کیلئے لوگوں کو احتیاطی تدابیر سے آگاہ کیا جائے۔(۱۱) خطبہ جمعہ کو صرف ضروری حمد و صلو ، تقویٰ کے بارے میں ایک آیت ، اور مسلمانوں کیلئے مصائب سے نجات کی دعائ پر اکتفا کیا جائے۔

نماز کے بعد بھی تمام حضرات ہجوم کرنے کے بجائے مناسب فاصلوں سے گھروں کو جائیں۔ آئمہ مساجد عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کریں، البتہ ان پر عمل کرانے کی ذمہ داری انتظامیہ پر ہے،اس کیلئے ائمہ کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا۔

حکومت ِ سندھ نے کہا تھا کہ مساجد کے ائمہ کرام اور مسجد انتظامیہ کے خلاف پہلے سے درج ایف آئی آرز غیر مشروط پر واپس لی جائیں گی اور آئندہ ان کے خلاف ایف آئی آر نہیں کاٹی جائیں گی، لیکن حکومت نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جس سے باہمی اعتمادواتحاد مجروح ہوا۔

آئندہ ایسی کارروائیوں کا اعادہ نہ کیا جائے اور حسبِ وعدہ عمل کرتے ہوئے تمام ایف آئی آر واپس لی جائیں ، اور گرفتار شدہ ائمہ کرام کو فوری طور پر رہا کیا جاے۔

مزید پڑھیں:وزیراعظم کا لاک ڈاؤن میں دو ہفتے کیلئے توسیع، تعمیراتی صنعت کھولنے کا اعلان

یہ اجلاس ملک کے میڈیکل اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے، اور ان کی اور پوری قوم اور انسانیت کی سلامتی کیلئے دعائوں کی اپیل کرتا ہے۔

اجلاس یہ بھی اپیل کرتا ہے کہ پوری قوم متحد ہو کر اپنی خدمات انجام دے اور ہر طرح کی سیاسی، گروہی ، فرقہ وارانہ اور عصبیت کا بالائے طاق رکھ کر اپنے اپنے فرائض انجام دے۔ان امور کی تنفیذ اور عمل درآمد کیلئے تمام شریک اداروں اور جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک بارہ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔

جن میں حضرت مولانا مفتی منیب الرحمن صاحب تنظیماتِ مدارس۔ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی فاق المدارس العربی۔ حضرت مولانا راشد محمود سومرو۔جمعیت علماء اسلام ۔ حضرت مولانا حافظ محمد سلفی ۔جماعت غرباء اہلِ حدیث ۔حضرت مولانا شاہ اویس نورانی جمعیت علماءپاکستان۔ محمد حسین محنتی جماعت اسلامی ۔مرزا ایوب بیگ تنظیم ِ اسلامی۔ حضرت مولانا یوسف قصوری مرکزی جمعیتِ اہل حدیث۔ حضرت مولانا اعجاز مصطفیٰ عالمی مجلس تحفّظ ختمِ نبوت۔مفتی عابد مبارک المساجد ، پاکستان اور مولانا محمد عادل خان شامل ہیں۔

مفتی منیب الرحمان کا کہنا تھا کہ حکومت آنکھیں کھولے ، حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم ہونا چاہئے۔

زمینی حقائق کو سمجھنا ہوگا۔ ہم طویل لاک ڈاؤن کے متحمل نہیں ہوسکتے مدارس اور مساجد ہماری دینی ضرورت ہے۔

Related Posts